صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
منگل 14 مئی 2024 

عفوودرگزر سنت رسول صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی روشنی میں

مولانا رضوان اللّٰلہ پشاوری | جمعہ 14 دسمبر 2018 

حضرت اُبی بن کعب رضی اللّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر ے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے ۔(مستدرک)
حضرت عبداللّٰلہ بن مسعود رضی اللّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللّٰلہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے ۔(مستدرک)
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :اے میرے رب، تیرے بندوں میں سے کون تیری بارگاہ میں زیادہ عزت والا ہے ؟ اللّٰلہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :وہ بندہ جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دے ۔(شعب الایمان)
 حضرت عائشہ رضی اللّٰلہ عنہابیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم پر جو زیادتی بھی کی گئی میںنے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللّٰلہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللّٰلہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے اورآپ کو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔(جامع الترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللّٰلہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللّٰلہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے ۔ (سنن ابوداﺅد)
 حضرت عقبہ بن عامر رضی اللّٰلہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم سے ملا، میں نے ابتداً آپ کا ہاتھ پکڑلیا اورمیںنے عرض کیا یا رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیک وسلم مجھے فضیلت والے اعمال بتائیے ، آپ نے فرمایا : اے عقبہ ، جوتم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو ، جو تم کو محروم کرے ، اس کو عطاکرو، اورجو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو۔(مسند احمدبن حنبل)
حضرت انس رضی اللّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللّٰلہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے ۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللّٰلہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے ۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللّٰلہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے ۔منادی کہے گا : ان کا جو لوگوں (کی خطاو¿ں )کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا:جس کا اجر اللّٰلہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے ۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد)
عفو ودرگزر کے چند واقعات:
میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لے کر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ، ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اوران پر وہ شوربا گرگیا، میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا، تو باندی نے کہا اے میرے آقا، اللّٰلہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے ”والکاظمین الغیظ“ میمون نے کہا:میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا)اس نے کہا :اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجئے”والعافین عن الناس “میمون نے کہا: میںنے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی” واللّٰہ یحب المحسنین“میمون نے کہا :میںتمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اورتم کو آزاد کردیتا ہوں۔(الجامع الاحکام :تبیان القرآن)
 حضرت انس رضی اللّٰلہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے ، اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر خراش آ گئی، وہ کہنے لگا:اللّٰلہ تعالیٰ کاجو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے ۔حضور پر نور صلی اللّٰلہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے ،پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔(بخاری، کتاب فرض الخمس)
امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللّٰلہ عنھما کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے ان پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے برتن آپ رضی اللّٰلہ عنہ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللّٰلہ عنہ نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی:اللّٰلہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے” وَال±کٰظِمِینَ ال±غَیظ“اور غصہ پینے والے، امام زین العابدین رضی اللّٰلہ عنہ نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اس نے پھر عرض کی” وَال±عَافِینَ عَنِ النَّاسِ“ اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ارشادفرمایا: اللّٰلہ تعالیٰ تجھے معاف کرے ۔ پھر عرض گزار ہوئی” وَاللّٰلہُ یُحِبُّ ال±مُح±سِنِینَ“ اور اللّٰلہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے، ارشاد فرمایا: جا ! تو اللّٰلہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے ۔(ابن عساکر، ذکر من اسمہ علی، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت اُم حبیبہ رضی اللّٰلہ عنھانے مجھے انتقال کے وقت بلایا، میں اُن کے پاس گئی تو مجھ سے کہا:ہمارے درمیان کوئی بات ہوجایا کرتی تھی تو جو کچھ ہوا ہے اللّٰلہ تعالیٰ مجھے بھی معاف کرے اور آپ کو بھی، میں نے کہا : اللّٰلہ تعالیٰ آپ کی ایسی ساری باتیں معاف فرمائے ، اور اُن سے درگزر فرمائے اور اُن باتوں کی سزا سے آپ کو محفوظ فرمائے، حضرت ام حبیبہ رضی اللّٰلہ عنہا نے کہا:آپ نے مجھے خوش کیا، اللّٰلہ آپ کو خوش فرمائے ! پھر حضرت ام حبیبہ رضی اللّٰلہ عنہا نے پیغام بھیج کر حضرت ام سلمہ رضی اللّٰلہ عنہا کو بلایا اور اُن سے بھی یہی کہا۔
حضرت ابوالدرداءرضی اللّٰلہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللّٰلہ عنہ آئے ، اُنہوں نے اپنا کپڑا پکڑ رکھا تھا، جس سے اُن کے گھٹنے ننگے ہورہے تھے اور اس کا اُنہیں احساس نہیں تھا، اُنہیں دیکھ کر حضور نے فرمایا: تمہارے یہ ساتھی جھگڑ کر آرہے ہیں،حضرت ابوبکر رضی اللّٰلہ عنہ نے آکر سلام کیا اور عرض کیا: میرے اور ابن الخطاب کے درمیان کچھ بات ہوگئی تھی، جلدی میں میں اُن کو نامناسب بات کہہ بیٹھا، لیکن پھر مجھے ندامت ہوئی، جس پر میں نے اُن سے معافی مانگی، لیکن اُنہوں نے معاف کرنے سے انکار کردیا، تو میں آپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا ہوں،حضور صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! اللّٰلہ تمہیں معاف فرمائے! اِدھر کچھ دیر کے بعد حضرت عمررضی اللّٰلہ عنہ کو ندامت ہوئی تو اُنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰلہ عنہ کے گھر آکر پوچھا: یہاں ابوبکر رضی اللّٰلہ عنہ آئے ہیں؟ گھر والوں نے کہا: نہیں! تو وہ بھی حضورصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے، اُنہیں دیکھ کر حضورصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کا چہرہ بدلنے لگا، جس سے حضرت ابوبکر رضی اللّٰلہ عنہ ڈر گئے اور اُنہوں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دو دفعہ عرض کیا: یا رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم! اللّٰلہ کی قسم! قصور میرا زیادہ ہے، پھر حضورصلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللّٰلہ نے مجھے تم لوگوں کی طرف رسول بناکر بھیجا تھا، تو تم سب نے کہا تھا تم غلط کہتے ہو، لیکن اُس وقت ابوبکر رضی اللّٰلہ عنہ نے کہا تھا آپ صل اللّٰلہ علیہ وسلم ٹھیک کہتے ہیں، اُنہوں نے اپنے مال اور جان کے ساتھ میرے ساتھ غم خواری کی، پھر آپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے دو دفعہ فرمایا: کیا تم میرے اِس ساتھی کو میری وجہ سے چھوڑ دو گے ؟ چنانچہ حضورصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد کسی نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰلہ عنہ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی۔
یہ ہیں اسلام کی وہ مبارک اور نورانی تعلیمات کہ جن کی برکت اور نورانیت کی وجہ سے ہمارا یہ انسانی معاشرہ باہمی رنجش و ناراضی اور خفگی و ناخوش گواری سے چھٹکارا حاصل کرکے اخوت و بھائی چارگی اور اتفاق و اتحاد کی زندگی بسر کرسکتا ہے ، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اس نکتے پر آکر کھڑا ہونا ہوگاکہ اسلام کی ان روشن اور مبارک تعلیمات کو سینے سے لگانا ہوگا اور اُنہیں مذہب اور قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا، تب کہیں جاکر ہمارے اس معاشرے اور ہماری اس اجتماعی زندگی سے نفرت، حقارت اور دُشمنی کا خاتمہ ممکن ہوگا اور اخوت و بھائی چارگی اور اُلفت و محبت کا بول بالا ہوگا۔اللّٰلہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کوسمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے(آمین بجاہ سید المرسلین)

انچارج دینی ایڈیشن روزنامہ اکثریت پشاور

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔