صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعرات 18 اپریل 2024 

اسلامی ایرانی تمدن

احمد پارسا | بدھ 17 اگست 2022 

نئی اسلامی تہذیب و تمدن کا تعلق کسی مخصوص نسل یا قوم سے نہیں ہے بلکہ یہ موضوع ایک وسیع تہذیب کی تشکیل کا نام ہے جس میں تمام نسلی اور قومی گروہ شامل ہیں تاکہ وہ  عالم اسلام کی سربلندی،  ترقی اور توسیع اس میں اپنا کردار ادا کری. دراصل اسلامی تمدن کا اصل ہدف ایسی تہذیب تک رسائی ہے جس میں انسان روحانی اور مادی طور پر ترقی کرسکتا ہے اور مطلوبہ اہداف جن کے لئے اللّٰلہ تعالی نے اس کی تخلیق کی ہے تک پہچ سکتا ہے۔

اس مقدس ہدف کا حصول یقیناً ہم سب کو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ اس تک پہنچنا چند ایک مراحل کو طے کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس حوالے کچھ نکات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اسلام اور اسلامی حکومت کے قیام سے محبت کرنا محققین اور مفکرین کا فرض ہے تاکہ وہ ان موضوعات کو وسعت دے کر اس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

سب سے پہلے ہمارے ہاں جو المیہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذات تک محدود ہیں اور اپنے شخصی فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام فیصلے کرتے ہیں اور اس کو گناہ تو دور غلط بھی تصور نہیں کرتے۔ ہمیں یہ احساس نہیں کہ کسی شخص کو رہبری اور ملکی سربراہی کے لئے منتخب کرنے میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہے ؟ ہم کسی بھی شخص کو کیوں ووٹ دیتے ہیں؟ کیا ہمارا شرعی فرض یہاں پورا ہوجاتا ہے کہ ہم ایک ایسے شخص کا انتخاب کریں کہ وہ روزمرہ کی اشیاء کو سستے داموں فراہم کرے؟ یا ہمارے شہراور گاؤں کی سڑکوں، گلیوں اور محلوں کو تعمیر کروائے؟ میرے بیٹوں کو نوکری فراہم کرے؟ یا انتخاب کرتے وقت میری چند ہزار روپے کی مشکل  کو حل کرنے کے لئے میری مدد کرے؟ ہمارا ہدف کیا ہے؟ کس میزان پر کسی کا انتخاب کرنا چاہیے؟ اس کا یہ ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ چیزیں غیر ضروری ہیں۔ نہیں یہ سب زندگی کا حصہ ہے یہ ہونی چاہئیں لیکن کیا انسانی زندگی کا ہدف یہ ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ کس ہدف کو حاصل کرنا ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کونسا رہبر یا کونسا حکمران ہماری مدد کرسکتا ہے؟ یا حتی کہ شخصیتوں اور حکمرانوں سے بالاتر ہوکر کیا موجودہ حکومتی نظام ہمیں اس ہدف تک پہنچا سکتا ہے؟ کیا ہم نافذنظام سے زندگی کے اس مقصد تک جس کے لئے انسان کی تخلیق ہوئی ہے پہنچ سکتے ہیں؟ کیا یہ ایک مطلوب اسلامی نظام حکومت ہے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات اور اس اصل ہدف کا حصول ہمیں جدید اسلامی تمدن کے عناصر میں ملتا ہے جس کو ایرانی انقلاب ایران رہبرجناب خمینی  نے اپنے مختلف بیانات میں ذکر کیاہے۔ ان میں چند ایک اہم عناصر کی طرف ہم یہاں اشارہ کرتے ہیں: 

اسلام اور توحیدی اقدار پر اعتقاد:

آیت اللّٰلہ خامنہ ای توحید اور ایک خدا پر ایمان کو جدید اسلامی تمدن کےثقافت کی  بنیادی عناصر میں سے سمجھتے ہیں جو پوری اسلامی دنیا کی اساس اور ماہیت ہے جس میں جہان کا خالق اور وجود دینے والا ایک خالق قادر حکیم اور مدبر ہے جس نے اس جہان کو ایک خاص مشیت اور حکمت کے تحت پیدا کیا لہذا جدید اسلامی تہذیب کا ایک ستون، توحید پر نظریاتی اور عملی عقیدہ ہے جو انسان کو اندرونی قوت دیتا ہے اور اسے استوار رکھتا ہے انسان کو سکون، خود اعتمادی، امید درست اور موثر نگاہ عطا کرتی ہے۔  اسلام میں توحید کا عقیدہ انسانی زندگی تمدن اور متعالی ثقافت کی سنگ بنیاد ہے۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللّٰلہ خامنہ ای کہتے ہیں: سب سے پہلے ، جدید اسلامی تمدن کی ضرورت ایمان ہے۔ ہم ، اسلام کے ماننے والوں نے، یہ عقیدہ پایا ہے۔ اورہمارا ایمان،  اسلام پر ایمان ہے۔ اسلامی تمدن میں یہ قدرت موجود ہے کہ وہ ایمان، علم ، اخلاق، مسلسل جدوجہد ، اعلی اخلاق اور بلند پایہ فکر،  اسلامی امت  اور پوری انسانیت کو تحفتاً پیش کرے اور مادہ پرستی اور جابرانہ عالمی نظریہ اور برے اخلاق سے جو مغرب کی تہذیب کی شناخت آزادکرے۔

قرآنی اصولوں پر توجہ :

اسلام کی طرف لوٹنا اور قرآنی اصولوں اور معاملات پر توجہ، اسلامی تمدن کی جدیدیت اور اسے توسیع دینے کے لئے سب سے اہم عنصر اور حکمت عملی ہے۔ اسلامی تمدن کی اصلی بنیاد، اس کی اسلامیت ہے اور اسلام  اسلامی ثقافت کی اساس ہے۔ رہبر معظم نے جدید اسلامی تمدن کی تشکیل میں امت کا قرآن سے رابطے کو پہلا قدم قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے: وعدہ الہی کی  مکمل تکمیل یعنی باطل پر حق کی فتح اور جدید اسلامی تمدن اور قرآنی قوم کی تعمیرنو  کا تحقق راہ میں ہے۔

ان کے مطابق جدید اسلامی تہذیب کی تشکیل تمام اسلامی مذاہب کے مشترکہ اصولوں کی بنیاد پر ہونی چاہئے نہ یہ کہ شیعہ ایران کی بنیاد پر، اور ظاہر ہے کہ تمام اسلامی فرقوں میں مشترکہ اور سب سے پہلا عالی ترین منبع،  قرآن عظیم ہے ۔

مجاہدت:

تمام تہذیبی تحریکوں میں ایک بنیادی خصوصیت "کوشش اور مجاہدت "کو حاصل ہے۔ اس سلسلے میں سپریم لیڈر کا کہنا ہے: مستقل جدوجہد کی بدولت تمام تہذیبیں ممکن ہوئی ہیں۔

جدیدیت:

یہ اسلامی ستون اس معنی کی تصدیق کرتا ہے کہ اسلامی تمدن ، جبکہ اصل اقدار ، اصولوں ، کتاب اور روایت کی پاسدار رہے، اورتجحر اور تعصب سے دور رہو۔ آیت اللّٰلہ خامنہ ای کے نقطہ نظر سے: زندگی کے نئے شعبے کھولنے کے لئے حقیقی جدیدیت اسلام کے لئے مطلوب ہے  اور یہ وہی ہے جو انسان کو  غور و فکر ، تعمق، صداقت ، فکرمندی ، عملی کاوش ، جدوجہد اور عظیم سعی کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔

 استقلال:

استقلال اور خود انحصاری کی اصل قرآن سے ثابت ہے اور مسلمانوں کو قرآن کی اس آیت کو اپنا منشا قراردینا چاہیئےجس میں ارشاد ہوتا ہے: وَلَنْ يَجْعَل اللَّه لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا-اور اللّٰلہ کافروں کے لیے مومنوں پر ہرگز کوئی راستہ نہیں بنائے گا(ترجمہ عبدالسلام بھٹوی-سورة النساء آیت141ٍ)

اس آیت کی تفسیر میں مولانا حنیف ندوی اپنی تفسیر سراج البیان میں لکھتے ہیں: "ولن یجعل اللّٰلہ للکفرین علی المؤمنین سبیلا " میں مسلمان کے دائمی غلبہ وتسلط کا اعلان ہے یعنی حجت وبراہین سے لے کر قوت ومنفعت کے تمام ذرائع تک مسلمان کے قبضہ میں ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ ابدا کفر ونفاق پر غالب وقاہر رہے گا ، اس کی قوتیں بےپناہ اور غیر محدود ہیں ۔ وہ دنیا میں ایک لمحہ غلامی کے لئے آمادہ نہیں ۔ آزادی وخلافت اس کی وفادار کنیزیں ہیں ، مگر اس وقت جب اس کا ایمان صحیح معنوں میں ایمان ہو ، جب اس کے ایمان کی درخشانی والمعانی چاند اور سورج کو شرمائے جب اس کے ایمان کی حرارت اس کے سینے میں ہمیشہ سوزان وتپاں رہے اور جب اس کے بازو میں قوت شیر خدا حضرت علی  (رض) اور زور حضرت عمر  بن الخطاب (رض) موجود ہو ، نہ اس وقت جبکہ ایمان کی روشنی کفر کی ظلمت کے مشابہ ہوجانے اور نہ اس وقت جب اس کی حرارت کفر کی بردت سے بدل جائے اور نہ اس وقت جب بازوشل ہوجائیں اور قوت جواب دے جائے۔

جدید اسلامی تمدن کے ایک دوسرے ستون کی حیثیت سے استقلال کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پر اسلامی تمدن ذلت ، انحصار اور تقلید کی شرائط میں حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ لہذا ، جدید اسلامی تمدن کی طرف بڑھنے کے لئے ، غیر ملکیوں کی تقلید سے دور رہ کر عزت اور  وقار سے آگے بڑھنا چاہئے۔

ثابت قدمی اور مقاومت: ثابت قدمی کا مطلب ہے اپنا راستہ نہ کھونا۔ مادی اثرات سے دھوکہ نہ کھانا؛ خواہشات اور خواہشات کے اسیر نہ ہونا؛ اسلام کے اخلاقی، روحانی اور شائستہ احکامات اور فرائض کو ترک نہ کرنا اور خود غرضی اور لذت کی طرف متوجہ نہ ہونا۔ یہ بنیادی باتیں ہیں۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ اسلام کے اعلیٰ مقاصد کے حصول، سپر پاورز کے خلاف استقامت و مقاومت اور مظلوموں اور مستضعف لوگوں کا دفاع ضروری ہے۔

یہ عالمی سطح پر ہے۔ یہ استقامت اور مزاحمت کا راستہ ہے جو پوری دنیا میں اسلامی تہذیب اور قرآن کا پرچم بلند کرے گا۔

انصاف اور جمہوریت حقیقی معنوں میں انسانی وقار اور آزادی اس کی مدد سے حاصل ہو گی اور یہ وعدہ الٰہی ہے:

"خداتعالیٰ نے ایک قطعی وعدہ کیا ہے کہ: "جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب ہمارا خدا ہے، پھر سیدھے کھڑے ہو گئے، ان پر فرشتے نازل ہوں گے، لیکن خوف اور غم نہ کرو۔"

راہ راست پر استقامت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللّٰلہ تعالیٰ انسان اور معاشرے سے غم اور خوف کو دور کرتا ہے اور کامیابی انہیں دیتا ہے ہم نے جو راستہ چنا ہے وہ خدا کا راستہ ہے۔

قرآن میں خداوند متعال فرماتا ہے: 

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ

بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللّٰلہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔( ترجمہ عبدالسلام بھٹوی-سورة فصلت - آیت30)

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔