افق افق پہ زمانوں سے جگمگائے حسین
مرے خیال کی دنیا میں آئے جائے حسین
بیشک حسین ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے یہ صرف ایک خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہے جب واقعی عاشور پیش آیا یہ انہی زمانوں میں سے تھا۔
آپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے فرمایا
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں
اللّٰلہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔
علی و فاطمہ رضہ کے لخت جگر ، چراغِ ہدایت اور کشتی نجات ہونا لوگوں کی سمجھ میں آ گیا جو ان کی معرفت حاصل کر چکے تھے۔
72 شہیدوں کی یاد ان کی بہادری شجاعت اور محبت اہل بیت کو آج بھی مسلمان عقیدت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔کربلا کا باب حضرت امام حسین نے لکھا اور کوفہ ،دمشق کا باب سیدہ زینب نے رقم کیا سیدہ نے واقعہ کربلا میں کبھی علی کا رنگ بھرا اور کبھی حسین بن کر تسلیم اور رضا کے نقشے کو ابھارا۔
شہادت امام حسین کا ذمہ دار یزید ہے جس نے گورنر مدینہ کو لکھا کہ حسین کا سر یا ہاتھ چاہئیے یزید کے حامی ملوکیت کے
ذر خرید بے ضمیر ہیں یزیدیت ملوکیت ہے اور ملوکیت یزیدیت ہے۔
ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب الحسین میں یزید کو قتل حسین سے بری الزمہ قرار دیا ہے اور سارا الزام ابنِ زیاد پر دھر دیا ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے کربلا پر اپنی کتاب میں لکھا کہ جب چند بڑے صحابہ کے بیٹوں نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو امام حسین کو چاہئے تھا کہ وہ بھی یزید کی بیعت کر لیتے۔
مولانا مودودی نے اس کا جواب دے کر سب کو لاجواب کر دیا کہ جب امام حسین نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی تو صحابہ کرام کے بیٹوں نے کیوں کی۔
مقام حسین کے ادراک کیلئے قرآن وحدیث تاریخ اور علامہ کے اشعار کافی ہیں۔
جب شہادت حسین کیلئے ملعون شمر آگے بڑھا تو اس کے سینے پر سفید برص کے داغ تھے امام نے فرمایا کہ یہ بد بختی تیرا ہی مقدر ہے وہ بد بخت آگے بڑھا اور سر اقدس کو تن سے جدا کر دیا ادھر روح نے قفس عنصری سے پرواز کی ادھر ندا آئی یاایتھاالنفس
اے اطمینان پانے والے نفس (حسین ) میں تم پر راضی ہو گیا۔
اے روحِ حسین میرے پاس لوٹ آ جنت کے دروازے کھلے ہیں
اللّٰلہ تعالی ہمیں اہل بیت کی سچی محبت اور اتباع نصیب کرے اے اللّٰلہ شہدائے کربلا اور آج تک جتنے بھی مسلمان وفات پا چکے ہیں ان سب کی مغفرت فرما اور ان سب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما۔
وہ تخت ہے کس قبر میں وہ تاج کہاں ہے
اے خاک بتا زور یزید آج کہاں ہے