صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعرات 25 اپریل 2024 

اورسیز پاکسانی پی آئی اے کے رحم وکرم پر

شمیم شاہد | پیر 28 ستمبر 2020 

ملک بھر کے ریاستی، نیم ریاستی اور خودمختار اداروں میں اگر کسی کا براحال ہے تو پاکستان انٹر نیشنل ائیرلائن اس میں سرفہرست ہے۔ کھبی اس ادارے کو نہ صرف پاکستان کا بلکہ دنیا بھر کے اداروں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ متحدہ عرب امارات کی امارات ائیر لائنز کی تعمیر و ترقی کا صلہ بھی پی آئی اے ہی کو جاتا ہے ۔ اسی طرح دنیا بھر کے دیگر ائیر لائنز میں بھی پی آئی اے کا کردار رہاہے۔ ویسے تو پی آئی اے کی تباہی وبربادی کا سارا الزام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں پر لگایا جاتا ہے لیکن درحقیقت اس ادارے کے سربراہ سمیت دیگر اعلی عہدوں پر ہمیشہ سے پاکستان ائیر فورس کے ریٹائرڈ ہونے والے ائیر مارشل، وائس ائیر مارشل کموڈور اور دیگر رہے ہیں۔ ابتدا سے لیکر اب تک ائیر فورس کے ریٹائرڈ یا حاضر سروس افسران پی آئی اے سے زیادہ تنخواہیں اور مراعات لینے والوں میں سرفہرست ہے۔ بھلا کرے موجودہ حکومت کا بالخصوص وزیر اعظم عمران خان، وزیر دفاع پرویزخٹک اور وزیر شہری ہوا بازی چوہدی غلام سرور کا کہ انہوں نے پی آئی اے میں اربوں روپے خسارے کے بعد اس ادارے کو پائیلکٹس کے جعلی ڈگریز اور جعلی لائسنسوں کی بنیاد پر دنیا بھر میں بدنام کردیا۔ بہت زیادہ ممالک کے ائیرلائنز نے پی آئی اے کیساتھ ہونے والے معاہدوں کو یا تو منسوخ یا معطل کردیا ہے۔ اور اب حالت یہ ہیں کہ پی آئی اے کی بیرونی ممالک کیلئے پروازیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں وہ بھی بہت کم ۔ مگر اس کے باوجود پی آئی اے کے کرایوں میں ہوشربا اضافے نے لوگوں کو بدندان کردیاہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حکومت کسی نہ کسی طریقے سے پی آئی اے کے اربوں روپے کے خساے کو اور سیز پاکستانی پورا کرنے کا تہیہ کرلیا ہے اور اب پی آئی اے کے اہلکار ان اور سیز پاکستانیوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے صورتحال نے اب حکومت اور پی آئی اے کے اہلکاروں کو اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے بھر پور مواقع فراہم کیا ہے۔ اس وقت افغانستان کیساتھ طورخم کے راستے سفر پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے اور افغانستان کیساتھ طورخم کی نجی ائیرلائنز پر بھی پابندی برقرار ہے تو اسلام آباد اور کابل کے درمیان پی آئی اے کی ہفتے میں چار پروازیں مختص ہیں۔ ماضی قریب میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان دو طرفہ کرایہ لگ بھگ 30 ہزار روپیہ تھا مگر اب صرف اسلام آباد سے کرایہ 25 ہزار روپیہ ہے اور اگر کوئی کابل سے اسلام آباد کیلئے یکطرفہ ٹکٹ خریدنا چاہتاہے تو اسے 65 ہزار روپیہ ادا کرنا پڑیگا۔ کسی وقت میں پشاور سے سعودی عرب کا کرایہ 50 سے 60 ہزار روپیہ تھا۔ مگر اب پشاور سے سعودی عرب کیلئے کرایہ ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ تیس ہزار روپے تک ہے۔ اور سعودی عرب کیلئے یہ ٹکٹ سفارش کیساتھ ساتھ پی آئی اے پشاور کے دفتر کے اہلکاروں کو رشوت دینے کے بعد ملیگا۔ پچھلے مارچ کے وسط سے جب کورونا وائرس کی صورتحال کے باعث دنیا بھر کے مممالک کی ائیر لائنز کی پروازیں معطل ہوئی تو پاکستان انٹر نیشنل ائیرلائنز کے باکمال لوگ اور لاجواب سروس بھی اس میں شامل رہی تھی۔ اور جب مئی کیوسط سے پی آئی اے کی سروسز عارضی طور پر بحال ہوگی تو متحدہ عرب امارات کے دبئی، ابو ظہبی اور دیگر ریاستوں کے علاوہ امریکہ اور دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے پاکستانی باشندوں نے پی آئی اے ٹکٹوں کے حصول کیلئے سفارشتوں پر انحصار کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا اور اسی مقصد کیلئے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بیرونی ممالک میں رہائش پذیر کارکنوں اور عہدیداروں سے رابطے کئے۔ متحدہ عرب امارات کے سفارتحانوں میں تعینات پاکستانی سفارتحانوں اور اہلکاروں نے جی بھر کر رشوت ستانی کا بازار گرم کیا ۔ انہی حالات کو دیکھ کر اب نہ صرف پشاور بلکہ ملک بھر میں پی آئی اے کے دفاتر میں کسی بھی ملکی اور غیر ملکی پرواز کیلئے ٹکٹ کا حصول رشوت کے بغیر ناممکن ہے۔ ویسے تو موجودہ حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف کے برسراقتدار لانے میں اورسیز پاکستانیوں کا بہت بڑا اہم کردار رہاہے۔ مئی 2013 کے عام انتخابات سے قبل فرانس ، بیلجیم، جرمنی وغیرہ جانے کا موقع ملاتھا تو اس وقت بعض دوست صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان ہی کو مسیحا سمجھتے تھے، مگر اب یہ دوست نہ صڑف مایوس دکھائی دیتے ہیں مبلکہ وہ اپنے کئے پر نادم بھی ہیں۔ بہرحال ان اورسیز پاکستانیوں کے بارے میں پشتو کا ایک مصرعہ/ٹپہ یاد آگیا، 
پریگدء چہ خڑ سیلاب مے یوسی
پہ لامبوزن جانان بہ ڈیرہ نازیدمہ
ترجمہ: مجھے سیلاب کے رحم وکرم پر چھوڑدے کیونکہ میں غوطہ خور محبوب پر بہت فخر کرتی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان کی نظریں تو روز اول سے پچھلے 73 سالوں کے دوران صرف آدھے عرصے تک حکمران رہنے والے دو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں یا سربراہی کرنے والے دو خاندانوں ، ان کے رشتہ داروں اور وفاداروں پر ہیں۔ مگر انہوں نے کبھی بھی ملکی وسائل کے 80 فیصد لوٹنے والوں کے بارے میں کچھ کہا ہی نہیں۔ پی آئی اے کے اربوں روپے خسارے میں صرف سیاستدان نہیں بلکہ پاکستان ائیر فورس کے ریٹائرڈ سینکڑوں افسران اور اہلکار بھی شامل ہے۔ اس خسارے میں پی آئی اے کے وہ افسران اور اہلکار بھی شامل ہیں جن کی نظریں اس ادارے کو مستحکم بنانا نہیں بلکہ صرف تنخواہیں اور مراعات کے حصول پر لگی ہوتی ہیں۔ اگر ماضی کی غلطی کا ادراک ممکن نہیں تو کم از کم اب موجودہ وقت میں بیرونی ملک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مزدوری کرنے والوں سے بھاری رقوم رشوت اور ٹکٹ کے طور پر طلب کرنے والوں سے تو جوب طلبی کریں۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔