صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 29 مارچ 2024 

امام خمینی کی شخصیت اور اسلامی انقلاب

مہران سکنداریان ڈائریکٹر جنرل خانہ فرھنگ اسلامی جمہوریہ ایران پشاور) | جمعہ جون 2020 

انقلاب اسلامی ایران کے بعد امام خمینی کی ذات عالم اسلام کیلئے ایک نئے تعارف کے ساتھ سامنے آئی. آپ بطور سربراہ ملک وریاست اور سربراہ حکومت ونظام دنیا کیلئے ایک انفرادیت رکھتے تھے.ان دنوں جب انقلاب برپا ہو چکا تھا بعض طبقات اس خدشے کا ا ظہار کرتے تھے کہ امام خمینی کی قیادت میں آنے والا انقلاب جذباتی اور عارضی ہے جو کسی بھی وقت ختم ہوسکتا ہے۔ اگررہبر انقلاب اسلامی حضرت روح اللّٰلہ الموسوی امام خمینی کی شخصیت کا عمیق تجزیہ کیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں معاشی، سیاسی، اقتصادی اور دیگر بنیادوں پر آنے والے انقلابات اکثر مواقع پر انقلاب کے رہبر کے منظر سے ہٹنے کے بعد تدریجا زوال کا شکار ہوئے. شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس انقلاب کی قیادت نے انقلاب تو برپا کردیا ہو لیکن اس کے ذریعہ عوام کیلئے کوئی مستقل نظام نہ چھوڑا ہو یا پھر متبادل قیادت فراہم نہ کی ہو جس کی وجہ سے وہ انقلاب اس شخصیت کے ساتھ ہی زوال پذیر ہوگئے.شاید ہی کسی انقلابی جدوجہد میں کوئی ایسی شخصیت سامنے آئی ہوجوخود بھی اپنی ذات میں ہر پہلو سے مکمل ہو، اس نے ایک مستقل نظام بھی دیا ہو اورپھر متبادل قیادت بھی فراہم کی ہو۔ یہی تین خوبیاں امام خمینی کی ذات اور ان کی قیادت کا محور تھیں جو انہیں دنیا میں ممتاز و منفرد کر چکی ہیں. ان کی ذات کا ہر پہلو جامع اور روشن ہے ان کا علم دیکھیں تو وہ ایک مرجع اعلی اور مجتہد اعظم نظر آتے ہیں۔ علمی میدان میں ان کی گرانقدر تصنیفات اسرارالصلو، مصباح الہدایہ، المرسل، تہذیب الاصول، الحکومتہ الاسلامیہ اس مرتبے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ زہد وتقوی اوراصلاح نفس کی منزل پر جس طرح امام خمینی فائز نظر آتے ہیں اس طرح کوئی قائد اور رہبر نظر نہیں آتا۔ شب زندہ داری کے ساتھ ساتھ معاشرتی قدروں کی اصلاح پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھنا آپ کی صفت تھی۔ اسلام پر گہری ریسرچ اور اسلام کی تاریخ، فقہ کے تمام موضوعات پر انتہائی دسترس حاصل تھی اور اسلام کی صحیح تشریح وتعبیر کے ساتھ ساتھ ایک اور منفرد چیز آپ نے متعارف کروائی وہ اسلامی نظریات کو جدید دور کے مطابق معاشرے میں نافذ کرنا اور حکومت اسلامی کے قیام کیلئے اسلامی اصولوں اور نظریات سے مکمل استفادہ تھا۔ جس سے وہ پروپیگنڈہ ختم ہوا کہ اسلام کے پاس مملکت چلانے یا عصر جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے.امام خمینی فقط ایک اعلی فقیہ، عظیم مجتہد، جید مذہبی رہنما، مرجع تقلید اور مذہبی شخصیت ہی نہیں ہیں بلکہ قابل تقلید سیاسی قائد مثبت اور اعلی تعمیری سیاست کے بانی، عالمی استعمار کی سازشوں کو بے نقاب کرنے والے، مسلمانوں کو اپنے نظریات اور عمل کے ذریعے وحدت کی لڑی میں پرونے والے، عالم اسلام کو ان کے حقیقی مسائل کی طرف متوجہ کرنے والے، امت مسلمہ کو اس کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے چہرے شناخت کرانے والے اور دنیا کو اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر میدان میں ارتقا کے مراحل طے کرنے کی مثال پیش کرنے والے عظیم انسان ہیں. یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کی جدوجہد میں امام خمینی نے 15سالہ جلا وطنی کے باوجود اپنے ملک کے عوام کی تربیت اور رہنمائی اس انداز سے کی کہ بالآخر عوام اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے. رہبر انقلاب ِاسلامی حضرت امام خمینی کی سچی قیادت، اسلام سے والہانہ اور مخلصانہ وابستگی اور خالی دعوں کے بغیر حقیقی عملی جد و جہد کی وجہ سے ایران کے کروڑوں عوام ہزاروں قربانیاں دینے کے باوجود آپ کی قیادت میں متحد رہے. شاہ ایران اور اس کی افواج نے ایک ہی دن میں اکثر اوقات سینکڑوں عوام کوگولیوں کا نشانہ بنایا اور ہر قسم کے مظالم ڈھائے لیکن امام خمینی کے دیئے ہوئے نظریات اور لائحہ عمل کو تھامے عوام مسلسل آگے بڑھتے رہے اور بالآخر شاہ ایران کو اپنی بادشاہت اور تسلط سمیت ایران سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی. یہ امام خمینی کی لافانی اور سحر انگیز قیادت ہی کا اثر تھا کہ انقلاب نے اسلامی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ایک بوریا نشین، عمامہ پوش عالم دین نے وطن سے دور رہ کر عوام کو باطل نظام کے خلاف اس طرح متحد کیا کہ ہزاروں برسوں سے مسلط بادشاہت کا نظام اس طرح زمین بوس ہوا کہ آج اس کی مٹی تک نہیں ملتی۔  امام خمینی نے داخلی حوالے سے ولایت فقیہ کے نظام کے تحت اور خارجی حوالے سے وحدت امت کے پیغام کے تحت اس انداز میں ایران کی ترقی اور انقلاب کے تحفظ کا آغاز کیا کہ ان کی زندگی میں انقلاب اسلامی ایک مضبوط اور مستحکم انقلاب بن چکا تھا.آج کی دنیا انقلاب کی دنیا ہے جس طرح گذشتہ چودہ صدیوں سے دنیا بھر کے حریت پسند اور حق پرست کربلا سے الہام لیتے آرہے ہیں.اسی طرح 1979 کے بعد سے آج تک دنیا میں جہاں جہاں انقلاب کیلئے جدوجہد شروع ہوئی یاجن قوتوں نے اپنے آپ کو انقلاب کا محرک یا علامت کہا انہیں انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی کی ذات سے ضرور استفادہ کرنا پڑا. یہاں ایک افسوس ناک امر بھی سامنے آیا کہ امام خمینی کی ذات کو بعض عناصر اور بعض عالمی طاقتوں اور ان کے پر وردوں نے منفی انداز میں پیش کیا اور انقلاب اسلامی کا تعارف بھی غلط انداز میں کرایا. امام خمینی کو ایک ظالم، جابر، ضدی اور محدود فکر کا حامل رہنما اور انقلاب اسلامی کو کسی خاص فرقے کا انقلاب قرار دیا. اس پروپیگنڈے کا مقصد جہاں مسلمانوں کو داخلی حوالے سے لڑانا تھا وہاں خارجی قوتوں کو موقع فراہم کرنا تھا کہ وہ انقلاب اسلامی کی بنیادوں پر حملہ کریں. امام خمینی کی قیادت کا ایک عظیم پہلو یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے امت مسلمہ کے داخلی اتحاد پر زور دیا اس طرح کسی مسلمان لیڈر نے کوشش نہیں کی. اکثر مسلم قائدین اپنے مسلک یا اپنے خطے تک محدود رہے اور عالم اسلام کے داخلی مسائل، داخلی و حدت اور اجتماعی مشکلات کی طرف عملی طور پر کام نہیں کر سکے. لیکن امام خمینی نے مسلمانوں کوفروعی نوعیت کے اختلافات ترک کرکے مشترکات پر جمع ہونے کا سبق دیا۔آج دنیا بھر کے باشعور اور جدت پسند مسلمانوں کے درمیان موجود اتحاد کی فضا امام خمینی کے اس سبق کا نتیجہ ہے. امام خمینی کی عطا کردہ اسلامی جمہوریت، روشن فکری، بہترین نظام حکومت عوام کی اعلی اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور فکری تربیت کا نتیجہ ہے کہ تبدیلیوں کے طوفانوں میں بھی انقلاب اسلامی قائم ودائم ہے. ایک عشرے کی طویل جنگ، عالمی استعمار کی مسلسل سازشیں دشمنان اسلام کی عالمی سطح پر کاروائیاں، ایران پر اقتصادی پابندیاں، دہشتگردی کے الزامات اور متعدد منفی و انتقامی کارروائیاں انقلاب اسلامی کی ترقی اور پیش رفت میں رکاوٹ نہیں بن سکیں اور انقلاب اسلامی امام خمینی کے افکار کی بدولت روز بروز ارتقا کا سفر طے کررہا ہے .امام خمینی کی شخصیت فقط اسلام کے ایک جید عالم دین، مجتہد یا مذہبی و روحانی قائد کی نہیں اور نہ ہی آپ کی نظر یا مشاہدہ و مطالعہ علوم اسلامی تک محدود تھا بلکہ آپ اپنے وقت کے تمام سیاسی نظاموں، نظام ہائے حکومت و مملکت اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے انقلابات اور تبدیلیوں سے آگاہ و باخبر تھے۔ حتی کہ ان میں موجود نقائص و نقصانات اور انداز نفاذ پر گہری نظر رکھ کر اس کی نشاندہی فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے سوشلزم، کمیونزم، بادشاہت، آمریت اور نام نہاد جمہوریت کو متعدد بار چیلنج کیا اور ان نظاموں کی ناکامیوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اسلام کے اعلی سیاسی و دینی نظام حکومت و نظام زندگی کی برتری اور فضیلت و اہمیت کو ثابت کیا۔ امام خمینی کو ایک اور امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اقتدار اعلی کا محور و مرکز صرف خدا تعالی کی ذات کو قرار دینے کا نظریہ متعارف کرایا اور دنیا بھر میں سپر پاورہونے کی دعویدار طاقتوں اور ملکوں کے نظریے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ''سپر طاقت ہے خدالاالہ الا اللّٰلہ'' کا ایسا نظریہ عطا کیا جو اس سے قبل عالمی سطح پر کسی مسلمان لیڈر نے نہیں دیا تھا۔ امام کی رحلت کے بعد بھی نام نہاد سپر طاقتوں کے مقابل صف آرا ہونے والی تمام مسلمان طاقتوں نے اس نظریے اور نعرے سے حوصلے لے کر اپنی جدوجہد کی۔ امام خمینی کے ساتھ عقیدت اور وابستگی کا حقیقی اور عملی تقاضا یہی ہے کہ ہم ان کی عظیم اور آفاقی تعلیمات پر خصوصی توجہ دیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اپنی داخلی خود مختاری اور اسلامی تشخص کے دفاع کے لیے متحد و منظم نہیں ہیں بلکہ جہاں وہ اغیار اور استعمار کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں وہاں اسلامی مکاتب فکر اور مسالک کے اختلافات اور تعصبات میں بھی مبتلا ہوچکے ہیں جس سے عالم اسلام کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ افغانستا ن، عراق، شام، یمن  فلسطین اور مسلم امہ کے متعدد مسائل کے بعد اب اگرچہ اجتماعی طور پر باہمی اتحاد ووحدت اور اخوت کو اہمیت حاصل ہورہی ہے اور علما و عوام اپنے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈالنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن اس جذبے میں بہت اضافے اور بلندی اور سچائی کی ضرورت ہے.۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔