صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
اتوار 19 اکتوبر 2025 

نیا سال نئی امیدیں

عبدالطیف حقانی | اتوار 23 اگست 2020 


جوں جوں انسان کی زندگی گزر رہی ہے، بعض لوگ سوچ رہے ہیں کہ وہ بڑے ہو رہے ہیں۔ لیکن اصل میں انسان چھوٹا ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ جس طرح کسی درخت کی شاخیں کاٹ لی جائیں۔ تو وہ چھوٹا ہو جاتا ہے ۔بالکل اسی طرح انسان کی زندگی جوں جوں گزر رہی ہوتی ہے تو وہ چھوٹا ہی ہوتا جا رہا ہوتا ہے ۔اور ایک دن موت آ گھیر لیتی ہے اور وہ قبر میں چلا جاتا ہے 
سال 1441ھجری گزر گیا اور ساتھ ہی ہماری زندگی کا ایک اہم باب بھی بیت گیا۔ دنیا بھر میں سال نو کی خوشیاں منائی جا تی ہیں، کہیں آتش بازی ہوتی ہیں، کہیں خوش آمدی تقریبات منعقد ہو تی ہیں۔ غرض ہر کوئی اپنے دوستوں کو سال نو کی مبارکباد ے رہتا ہے۔ سال تو گزر گیا، لیکن ہمیں اپنی گزری زندگی کے اس سال کا جائزہ لینا ہوگا، کہ اس گزرے ایک سال میں ہم نے کیا کھویا، کیا پایا اور کیا سیکھا؟
گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے۔ اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے ۔اس نئے برس کی نئی صبح ہمارے کانوں میں سرگوشی کر رہی ہے،کہ.......
 اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے،
 پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔
 مُسلمانوں کا قمری اِسلامی نظام تاریخ جو کہ رسول صلی اللّٰلہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے۔ اُس نظام تاریخ کے مُطابق ایک اور نیا سال شروع ہو چکا۔ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو کچھ مجبوریوں کے تحت، کچھ مالی اور تجارتی لالچ کے تحت، یا محض دیکھا دیکھی اور دُنیاوی رَسم و رِواج کیلئے اپنے اِسلامی نظام تاریخ کو چھوڑ کر اپنے دِن، مہینے اور سال چلاتے اور مناتے ہیں۔ ہجری سن دوسرے مروجہ سنین سے بہت سی باتوں میں منفرد نظر آتا ہے۔ ہجری سال کی ابتدا چاند سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑاگیا۔تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں ،یا جنگلوں میں، شہروں میں بستے ہوں، یا دیہاتوں میں،نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے بھی اپنے معاملات بہ آسانی طے کرسکیں۔ اور انہیں کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور نہ کسی مادی سبب کی احتیاج ہے۔
نئے برس کے سورج کی کرنیں اندھیروں کو بھگا کر روشنی اور نور کا پیغام امید لائی ہیں۔ اس پیغام میں مایوسی کی جھلک نہیں، محرومیوں کا رونا نہیں، اور اس صبح نو میں مسرتوں اور امن کا پیغام ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم ان سے کیا حاصل کرتے ہیں۔ ظلمت یا نور، جہالت یا علم، یہ ہمارے اپنے اوپر ہے۔ رحمت کے طلب گار ہیں یا غضب کے۔۔۔۔؟ اس نئے سال کو ہم کیسا بسر کرنا چاہتے ہیں؟ 
ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک سمجھدارانسان کو بے چین کردیتا ہے۔ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے۔کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں۔بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے۔ اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔نیا سال ہمیں 365 دنوں اور 52 ہفتوں کا وقت دیتا ہے کہ کچھ کر سکتے ہو تو کر لو، یہ امکانات کی دنیا ہے۔ یہاں وسیع امکانات موجود ہیں۔ یہ ممکنات کی دنیا ہے۔ یہاں کچھ بھی نا ممکن نہیں، یہ منزلوں کو پانے کی دنیا ہے۔ اگر آپ نے وسیع تر دنیا کو مسخر کرنا ہے، تو اولین شرط کے طور پر اپنے ارادے کو مضبوط بناناہے۔ یہاں سب کیلئے برابر مواقع موجود ہیں۔ جو تقدیر کو سنوارنا چاہتا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ بھرپور مواقع سے فائدہ اٹھائے۔ ورنہ یہ برس بھی بیت جائے گا۔ یہ لمحے بھی ماضی بن جائیں گے۔ دن اور مہینے کچھ کیے بنا خالی گزر جائیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے صرف کیلنڈر بدلا ہم نے دل نہیں بدلے۔ ہمارا دل وہی پچھلے سال اور پچھلے عرصے کی کدورت لیے نفرت کی آگ میں جلتا رہا۔ ہمارے دل میں الفت و محبت نے گھر کبھی نہیں۔ہم نے فکری معاملات اور بہتر سوچ کا پرچار تو کیا ،لیکن اپنے سوچنے سمجھنے اور دیکھنے کا انداز نہ بدلا۔ ہم نے پہلے کی طرح اس سال بھی معاملات میں خامیاں نکالیں ،ہر شخص کی ہر کوتاہی کی نشاندھی کی، لیکن اس کی خوبی کو نظر انداز کر گئے۔ 
ہم نے ہمیشہ سے کسی بھی سال کے اختتام پہ کوئی تقریب منعقد نہیں کی۔ لیکن اصل میں تقریب سال کے اختتام پہ رکھنی چاہیے ۔تا کہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ ہم نے اس سال کی کارکردگی کیسے نبھائی۔ اور ہم نے اس سال کیا سیکھا۔ جو پہلے نہیں جانتے تھے، اور کیا پایا جو پہلے سے موجود نہ تھا ،اور کیا کھویا جو ہمارے پاس موجود تھا، کیا ہم نے اپنا نظریہ اپنی فکر اور انفرادی سوچ تو نہیں کھو دی، لیکن ہم ایسا کب سوچتے ہیں۔ اگر ہم سال کے شروع میں ہی پلاننگ کریں گے۔ خود احتسابی کے بعد نئے سال میں ہمیں اپنی ان غلطیوں کو سدھارنا ہوگا اور اپنی غلطیوں کی تو بہ کر کے اچھے اور نیک کام کرنے ہوں گے۔اللّٰلہ کرے نیا سال ہمارے لئے اور پاکستان کیلئے خوشیوں بھرا سال ثابت ہو۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔