صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
منگل 21 اکتوبر 2025 

دو مقدس انگلیاں

ڈاکٹر وقاص نواز | جمعرات 20 اگست 2020 

پاکستان میں اس وقت بیالیس لاکھ ایسے بچے ہیں جو بن ماں باپ کے ہیں اور پاکستان کے ایدھی ہومز، سیو اور سولز، برنی ٹرسٹ اور یتیم خانوں میں پل رہے ہیں ـ ایسا نہیں ہے کہ ان بچوں کے ماں باپ کبھی تھے ہی نہیں ـ میرے اور آپ کی طرح اور ہمارے بچوں کی طرح ان کے بھی ماں باپ تھے لیکن کوئی دہشت گردی کا شکار ہوگیا؛ کوئی زلزلوں میں دب گیا؛ کوئی سیلابوں میں بہ گیا اور کوئی حادثوں اور بم بلاسٹوں کا شکار ہوگیا ـ کسی بچے کو فرقہ ورانہ قتل و غارت نے اس عمر میں یتیم مسکین کردیا اور کسی کو کچھ لمحوں کی ''نام نہاد جائز'' محبت نے ساری عمر کیلئے ''نا جائز'' قرار دے کر کسی کوڑے کے ڈھیر یا ایدھی جھولے میں چھوڑ دیا ....... وہاں سے کسی اللّٰلہ کے بندے ' کسی انصار برنی کسی عبد الستار ایدھی نے ان کو اٹھا لیا اور باقی بیس ہزار بچوں کی طرح اس کے باپ کے خانے میں بھی اپنا نام لکھوادیا........ ایدھی کو موت نے اٹھا لیا اور ہمارے دلوں سے اس احساس کو ہمارے نفس اور خود پرستی نے اٹھا لیا —ـلیکن پھر اللّٰلہ کے نبی صلی اللّٰلہ وسلم نے بھی اپنے ہاتھ کی دونوں انگلیوں کو اٹھا لیا اور فرما دیا:
''میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہونگے جیسے یہ دونوں انگلیاں ساتھ ہیں'' (صحیح بخاری)
وقت ٹک ٹک کرتا گذر رہا ہے۔ پوری کائنات کی سب سے وی آئی پی شخصیت کیساتھ ساری عمر محفل سجانے کا وقت ـ ایسے پاس رہنے کا وقت کے ان کے ایک ایک سانس مبارک کی خوشبو ہماری سانسوں میں اترے ـ لیکن ہمیں یہ بات نہی سمجھ آرہی اور وقت ہے کہ گزرے جارہا ہے ـ 
''کفالت'' کا ایک مطلب اس یتیم بچے کی مالی سرپرستی کرنا بھی ہے جو کہ ایک بہت احسن عمل ہے اور بہت سے نصیب والے ایسا کر بھی رہے ہونگے ـ لیکن میں آج اس کفالت کا ذکر کر رہا ہوں جو ہمارے گھروں میں ہمارے بچوں کی ہورہی ہے ـ مالی نہیں احساس کی کفالت ـ وہ والی کفالت جو ہمارے بچے کے ٹوٹے ہوئے کھلونے جوڑتی ہے ـ اس کیلئے دوزانوں ہو کر گھٹنوں کے بل گھوڑا بن جاتی ہے ـ اس کی گڑیا کا بازو ٹوٹنے پر ایسی روتی ہے جیسے باپ کا اپنا بازو ٹوٹ گیا ہو ـ کفالت کا افضل مطلب بھی ہے اور ان دو مبارک انگلیوں کے اٹھنے کی وجہ بھی ـ 
حالیہ دنوں میں ''کا شانہ یتیم خانے'' کا ایک واقعہ سامنے آیا جب اس یتیم خانے کی ایک ورکر اقرا کائنات نامی خاتون نے ایک ایسے یتیم خانے کا راز افشاں کیا جہاں سے ان یتیم بچیوں کو امرا کی ہوس مٹانے کیلئے ان کی جگہوں پر بھیجا جاتا تھا ـ وہ عورت 6 فروری کو پراسرار طور پر مر گئی اور ہم؟ ہم پہلے ہی زندہ کب تھے! اس کی موت پر تبصرہ کیا حکومت کو دو گالیاں دیں اور اللّٰلہ کے حوالے کرکہ اگلی پوسٹ پر چلے گئے ــــ جی یہ ووہی بچیاں ہیں جن کے زینب، فرشتہ اور ہزںور کے برعکس باپ آج ان کے سروں پر نہیں جو کم سے کم آج اگر زندہ ہوتے تو ان کی عصمتوں کی اس مکروہ تجارت پر سوشل میڈیا پر احتجاج تو کرلیتے ـ اس سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ آج کے اس ہوس سے بھرپور معاشرے میں ان یتیم بچوں بچیوں کی محض یتیم خانوں میں مالی سرپرستی اتنی کافی نہیں جو ہمیں جنت میں نبی پاک صلی اللّٰلہ وسلم کے پہلوں والا وہ ساتھ نصیب کردے جہاں ان کے منور ہاتھوں کا لمس ہمارے گنہگارشانوں پر محسوس ہوجائے ـ 
تو پھر آج کے اس مادی دور میں وہ کونسی کفالت ہے جو ان بے زبانوں کی زندگیاں اور ہم ناشکروں کی بے چینیاں بدل دے؟ ـ پاکستان میں جوڑوں کے بانجھ پن کا تناسب بیس فیصد ہے ـ یعنی ہر سو میں سے بیس جوڑے بے اولاد ہیں جو دن رات اللّٰلہ سے اپنی گود ہری ہونے کی دعا مانگتے ہیں ـ طرح طرح کے ٹوٹکے کرتے ہیں ـ جگ راتیں کرتے ہیں ـ معجونیں' بابے؛ پیر ' فقیر' تعویز ' گنڈے ' چلے اور چرخے الغرض ہر طرح کے جتن کرتے ہیںـ مراد پوری نہیں ہوتی تو اپنا دل بہلانے کیلئے بلیاں اور پرندے پال لیتے ہیں یا پھر'' اپنا خون''کہ کر اپنے ہی رشتہ داروں کے بچے گود لے لیتے ہیں جن کے پہلے ہی والدین موجود ہوتے ہیں—لیکن وہ کونسا جتن ہے جو ہمیں ہمارے گھروں سے کچھ میل دور موجود کسی '' یتیم خانے'' کسی ایدھی ہوم جانے سے روکتا ہے؟ یہاں میں بے اولاد جوڑوں کی بات ہی کیوں کروں؟ ہم سب جو کہیں سے بھی بے اولاد جوڑوں سے عمل میں بہتر اور برتر نہیں ہیں ' پھر بھی اللّٰلہ کی طرف سے اولاد کی نعمت سے مزین ہیں؛ تو ہمیں کیا چیز روکتی ہے کہ ہم جہاں دو تین اپنے بچے پال رہے ہیں وہاں ایک ماہ کی گڑیا تین ماہ کا گڈا بھی لے آئیں اور اس کو بھی اسی آنگن میں پالیں جس کے بارے میں نبی پاک صلی اللّٰلہ وسلم نے فرمایا تھا:
''مسلمان گھروں میں سب سے عمدہ و بہتر وہ والا گھر ہے جس کے اندر کوئی یتیم ہو اور اس کیساتھ نہایت اچھا برتائو کیا جاتا ہو''
اس قدر ترغیب کے باوجود بھی جب میں نے ہمارے معاشروں میں اس عمل سے جھجک کی وجوہات پر غور کیا تو مجھے یہ رکاوٹیں نظر آئیں جو اپنے حل اپنے اندر ہی لیی کھڑی تھیں لیکن شاید ہماری کمزور نظر نے بس وہاں دیکھا نہیں ـ 
ایک رکاوٹ جس کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ''اپنا خون اپنا ہی ہوتا ہے '' ـ خدا کی قسم ہمیشہ اپنا نہیں ہوتا ہے ـ میں نے اپنے خون کو ماں باپ کو دھکے دیتے اور بے آسرا چھوڑتے بھی دیکھا ہے ـ انہی ٹرسٹ ہومز میں جہاں یہ بچے رل رہے ہوتے ہیں میں نے بہت سے بزرگ والدین بھی رلتے دیکھے ہیں جن کو ان کے ہی '' اپنے خون '' وہاں چھوڑ گیے ـ بحثیت ایک ڈاکٹر میں یہ بات جانتا ہوں کہ سب بچوں کا خون سرخ ہوتا ہے جس کو بس اتنا پتا ہوتا ہے کہ جب یہ خون بہے گا تو جس کی گود میں وہ سورہا ہے وہ ہی اس کا مرہم کریگا بھلے وہ اس کا سگا باپ ہے کہ نہیں ـ اپنا خون اپنا ہوتا تو مغل بادشاہ اورنگزیب اپنے باپ شاہجہان کو آگرہ کے سرخ قلعہ میں اپنی موت آپ مرنے تک قیدی نہ بنا کر رکھتا ـ 
ایک اور رکاوٹ جو سب سے زیادہ زبانوں پر رہتی ہے وہ اسلام اور شریعت میں ''محرم نامحرم'' کے مسائل ہیں ـ کہ اگر آپ کسی دو ماہ کی بچی کو اپنی بیٹی بنا کر اپنی دنیا میں لے آیے ہیں تو کل کو جب وہ بڑی ہوگی تو وہ آپ کی اور آپ کے بیٹے کی نا محرم ہوگی ـ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام کا نام استعمال کر کہ یہ توجیہات اس معاشرے میں دی جاتی ہیں جہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے سب نا محرم رشتے ایک ہی چھت تلے روزانہ رہتے ہیں ـ خواہ وہ بھابھی اور دیور کا رشتہ ہو یا نندوئی اور بھاوج کا ـ وہ بچی جس کے باپ اور بھائی کے '' نا محرم '' ہونے کو ایک دلیل بنا کر اس سعادت سے جب منہ موڑا جاتا ہے تو کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہی بچی جب کسی یتیم خانے میں پلتی ہے تو اس کے کتنے نامحرم ہوتے ہیں... چلیں میں گنواتا ہوں ـ یتیم خانے کا سرپرست، باورچی، کام والا. موچی، درزی؛ منشی ' چپراسی' اسی یتیم خانے میں اکثر ''خیرات'' کے بدلے تجارت کرنے آنے والا دلال؛ اسی ملک کی پارلیمنٹ کے ایم این اے' ایم پی اے اور اسی ملک کے تھانوں کے ایس ایچ او' حولدارـ ــ لسٹ بہت لمبی ہے لیکن میرا خیال ہے بات سمجھ آگئی ہوگی کہ اکثر ایسے معاملات میں نیت اور آج کے حالات بھی اثر رکھتے ہیں ـ اسلام فلاح انسانیت کا مذھب ہے اور کسی یتیم کو''محرم نا محرم'' کے الفاظ میں قید کرکہ آج جیسے جنگلی معاشرے کے کھلے حیوانوں کے حوالے نہیں کرسکتا ـ میں اس معاشرے کے بارے میں لکھ رہا ہوں جہاں روزانہ اپنے سگے والدین کیساتھ رہنے والی اٹھارہ بچیوں کے ریپ ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر تو ابھی اس عمر کو بھی نہیں پہنچی ہوتیں جہاں محرم نا محرم والے مسائل شروع ہوتے ہیں ـ تو ذرا سوچئے کہ ان بچیوں کا کیا حال ہوگا جن کے بارے میں سارا قصبہ جانتا ہے کہ ان کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے ـ 
اس کے باوجود بھی اگر محرم نامحرم کا مسئلہ آڑے آتا ہے تو شریعت نے ہی اس کا ایک حل بھی دیا ہے جس کو ''رضاعی ماں '' کہا جاتا ہے ـ کہ آپ اپنے گھر میں ایک دو ماہ کا بچہ یا بچی لائیں اوراس کو ان کی منہ بولی ماں (یعنی اپنی زوجہ) کا دودھ پلوادیں اور آج کے سائنسی دور میڈیسن کے ذریے یہ بات بہت آسان ہے ـ اس طرح وہ ننھا پھول نا صرف آپ کا محرم ہوگا بلکہ ہزاروں نامحرموں، نا مہربانوں' ندیدوں اور درندوں سے بہت دور بہت محفوظ ماحول میں پلے گا ـ وہ ننھی جان ہمیں نا صرف اولاد کی خوشی سے مالا مل کریگی بلکہ اس کے ننھے قدموں کے صدقے ہمارے میلے دل ' اجڑے گھر اور گرتے کاروبار بھی سنبھلنے لگیں گےـ اور ہر کالونی میں ایک نہ ایک گھر '' سیو آور سولز '' بن جائیگا ـ 
یہاں امریکا سمیت بہت سے مغربی ملکوں میں بچے گود لینے کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتے ہے ـ اس کو '' فاسٹر پیرینٹ'' کہا جاتا ہے ـ بچہ گود لینے والے کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے ـ بچہ حوالے کرنے کے بعد بھی وقتا فوقتا ان کی خبر پرسی کی جاتی ہے ـ بہت سے بچے فخر سے بتاتے ہیں کہ ''ہم گود لئے گیے تھے '' ـ جو لوگ باہر سے بچے گود لیتے ہیں حکومت ان کے ویزے ترجیحی بنیادوں پر لگاتی ہے تا کہ بچہ جلد سے جلد یہاں آسکےـ کمپنیاں ان لوگوں کو زیادہ تنخواہ دیتی ہیں جنہوں نے بچے فوسٹر کیے ہوتے ہیں ـ پتا نہیں کس نے ان گوروں کو میرے نبی صلی اللّٰلہ وسلم کی اس حدیث کا بتا دیا ہے کہ ''بہترین گھر وہ ہوتے ہیں جہاں یتیم پلتے ہیں '' ـ بدقسمتی سے میرا وطن ابھی تک اس عربی حدیث کا اردو ترجمہ نہیں سمجھ سکا ـ حکومتی سطح پر صرف صوبہ پنجاب میں 2004 میں نیگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ '' کے نام سے بس ایک قانون آیا اور اس میں بھی بس یتیم خانوں میں پلنے والے بچوں اور سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سونے والے بچوں کے درمیان ''اصطلاحی فرق ''بیان کیا گیا اور عملی طور پر آج بھی خالی رہے ـ 
لیکن ان اندھیروں میں بھی جگنو مل جاتے ہیں ـ آج کے اس مشکل دورمیں بھی جب نیکی کا ارادہ کرنے سے پہلے ہی اس کے راستے میں حائل لوگوں کے جملوں اور سماج کی رکاوٹوں کا توڑ سوچنا پڑتا ہے؛ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسا عمل کر رہے ہیں ـ خدا کی قسم! میں نے ان میں سے کسی کو غریب ہوتے یا نادم ہوتے نہیں دیکھا ـ بس کہنا اتنا ہی تھا کہ آپ کے اردگرد جو ایسا کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کیجئے ـ اپنے گھروں میں اس کی عمل کی تجویز اور اپنے جوڑوں کو اس کی ترغیب کیجیے ـ شاید آج ہم اس کی بات کریں گے تو کل ایسا کرنے کا حوصلہ بھی کریں گےـ ہم میں سے ہر خاندان ایک نو زائدہ بچہ گود لے لے تو ہم یہ تعداد بیالیس لاکھ سے کچھ تو کم کر ہی سکتے ہیں —— یاد رکھیں! یہ محض عبد الستار ایدھی کی ذمہ داری نہیں ہے ـ یہ محض انصار برنی کا شعبہ نہیں ہے ـ وہ سب اپنی جنتیں پکی کر گیے' لیکن وقت ہمارے پاس ہی کم ہے ـ وہ''دو مقدس انگلیاں''آج بھی اٹھی ہوئی ہیں. لیکن بس ہم ہی اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے وہاں پہنچ نہی پارہے جہاں ہم ان انگلیوں کا لمس محسوس کرسکیں اور وقت ہے کہ گزرے جارہا ہے کیوں کہ '' گھڑیاں ٹک ٹک کر رہی ہیں ''ـ

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔