صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
منگل 21 اکتوبر 2025 

جنسی بھوک ، اس کا تدارک اور ہمارا معاشرہ

روشن خٹک | جمعرات 20 اگست 2020 

یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیکس کے بارے میں گفتگو کرنا باعثِ شرم سمجھا جاتا ہے ورنہ اس حقیقت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ مرد ہو یا عورت ، سیکس کے بارے میں وہ کوئی نہ کوئی دلچسپی ضرور رکھتا ہے کیونکہ اللّٰلہ تعالی نے اس کے خمیر میں 
جنسی بھوک کی جبّلت رکھی ہے۔صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ چرند پرند اور ہر ذی حیات میں سیکس کی خواہش ضرور موجود ہ ہوتی ہے کیونکہ اسی عمل سے انسانی اور حیوانی نسل آگے بڑھتی ہے۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اور اس پر اللّٰلہ تعالی کی خصوصی نوازش اور رحمتیں ہیں اس لئے دیگر مخلوقات کی نسبت سیکس کی خواہش و طاقت دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں زیادہ عطا فر مائی ہے ۔ مگر ساتھ ہی اس کیلئے حدود و قیود بھی مقرر فر مائی ہیں کیونکہ کوئی بھی چیز حد سے بڑھ جائے تو اسکا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں روز سیکس کے بارے میںایسی ایسی دل ہلا دینے والی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں جنہیں پڑھ کر اپنے اپ کو انسان ہونے پر شرم آتی ہے۔ انسان جنسی ضرورت کوپورا کرنے کیلئے جس طرح حدود و قیود کو پار کرکے گزرتا ہے ،اس طرح تو حیوان بھی نہیں کرتے ۔ آج کے اخبارات میرے سامنے پڑے ہیں جس میں خیبر پختونخوا کے ضلع نو شہرہ میں چھ سالہ بچی کیساتھ زیادتی کے بعد قتل کرنے کی خبر نمایاں الفاظ میں چھپی ہے ۔ ایسے واقعات کی خبریں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سوچتا ہوں ، اس کا تدارک کیسے ہو سکتا ہے ؟ اگرچہ جنسی تعلق کا ختم ہونا تو ناممکن ہے کیونکہ جب سے یہ دنیا قائم ہے تب سے بعض معاشروں میں سخت قوانین لاگو ہونے کے باوجود بھی جنسی واقعات کو روکا نہ جا سکا ۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جنسی خواہش پیٹ کی بھوک کیطرح،پیاس اور نیند کی طرح ایک فطری ضرورت ہے۔مگر جس طرح بھوک یا پیاس بجھانے کیلئے کچھ خوراک یا پانی استعمال نہیں کیا جاسکتا بعینہ جنسی بھوک پر بھی کچھ حدود و قیود قائم ہیں اور ہونے بھی چا ہیئں ۔ لیکن یہ بھی دیکھنا چا ہیئے کہ ہمارا معاشرہ کیا چاہتا ہے ؟ وہ جنسی خواہش کا خاتمہ چاہتا ہے یا اسے قائم رکھنا چاہتا ہے ؟ اگر کھلے دل سے اس کا جواب ڈھونڈیں تو ہمارا معاشرہ شدید جنسی خواہش کا شکار ہے جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دنیا میں انٹر نیٹ پر سب سے زیادہ فحش ویب سائٹس پاکستان میں دیکھی جاتی ہیں۔ دراصل اس فطری خواہش پر اپ جتنی پابندی لگائینگے ،اتنی ہی اس میں شدّت آتی ہے اور یہ رغبت جنسی دیوانگی میں ڈھل جاتی ہے ۔جس کا اظہارہم اخبارات میں بچوں کیساتھ جنسی زیادتی ،زنا بالجبر یا تعلیمی اداروں میں معصوم کلیوں کیساتھ جنسی تعلق قایم کرنے کی صورت میں دیکھتے ہیں ۔ 
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا تدارک کیسے کیا جائے ؟ اگر چہ اس پر کھلے ذہن کیساتھ بات کرنے پر بھی طعن و تشنیع کا سامنا 
کرنا پڑتا ہے مگر بطورِ ایک قلم کار میں وہی کچھ لکھونگا، اس کے تدارک کیلئے وہی حل پیش کرونگا،جو میرے زہن کی تخلیق ہوگی ، لہذا 
میری تجویز یہ ہے کہ حکومت اور معاشرہ جنسی خواہش کا گلا گھونٹنے کی بجائے اس فطری خواہش کو تسلیم کرتے ہو ئے جنسی گھٹن دور کرنے کیلئے باقاعدہ ہر شہر میں بلکہ ضلعی سطح پر ایسے مقامات مخصوص کئے جائیں جہاں جنسی جنون میں مبتلا افراد کو تسکین مل سکے
،جسم فروش عورتیں گلی گلی میں پھیلنے کی بجائے ایک جگہ جمع ہوں تاکہ ہر جگہ گند نہ پھیلے۔ یوں تو ہمارے کانوں میں لفظ ''جسم فروشی '' جوں ہی ٹھکرااتا ہے تو ہمارے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور برے خیالات کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم فروشی کا 
شعبہ انسانی زندگی کا سب سے قدیم ،لازوال اور متحرک شعبہ رہا ہے جس کو امراء ،وزراء اور سرمایہ داروں کی پیداوار بھی کہا جاتا ہے۔یہ وہ شعبہ ہے جس سے دنیا کا کوئی حصہ خالی نہیں اور نہ ہی اس کو کوئی ختم کر سکا ہے ۔بہت سارے مذہبی ممالک اس کو ناجائز اور 
قابلِ سزا جرم سمجھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہاں یہ عمل زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت سیکس ورکر کی تعداد پچیس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور انٹر نیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرینگ گروپ( IHRM) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لہذا ہمیں فتوے جاری کرنے کی بجائے مرض کا علاج کرنا چاہیئے۔
اب فیصلہ حکومت اور عوام کے ہاتھ میں ہے ، چاہے تو پورے پاکستان کو چکلہ بنا دیں اور بچوں اور معصوم بچیوں کو درندہ صفت انسانوں کی جنسی بھوک کی بھینٹ چڑھائیں یا ایسی چراگاہیں بنا دیں جہاں یہ بھوکے ،پیاسے اپنی بھوک اور پیاس بجھا سکیں۔۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔