یہ ایک حقیقت ہے ،کہ آج جس دور میں ہم جا رہے ہیں، انتہائی عجیب وغریب اور حیران کن ایجادات سامنے آئی ہے۔ اور بلاشبہ یہ تمام ایجادات ایک ضرورت کے تحت وجود میں آئی ہے۔آج چونکہ دنیا میں ہر طرف سہولت پسندی کا دور دورہ ہے، گزرتے ایام کیساتھ ساتھ جدید الیکڑانک آلات وجود پذیر ہورہے ہیں۔ جس سے بڑے بڑے فاصلے سمٹ کر رہ جاتے ہیں۔، سیکنڈوں میں ایک پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اور باہم بات چیت کے ایسے ذرائع بھی ایجاد ہوگئے ،کہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں اس طرح بات کی جاسکتی ہے گویا کہ دونوں آمنے سامنے ہوں، نیز خیالات کا تبادلہ، خبروں سے آگاہی، باہم مربوط ہونا، انٹرنیٹ کے ذخائر سے فائدہ اٹھانا، نہایت ہی آسان ہوچکے ہیں۔
یہ تمام سہولیات اور فوائد اپنی جگہ پر ،لیکن ان ایجادات نے آج جس قدر بے حیائی کا بازار گرم کر رکھا ہے، انسانیت کی تاریخ میں زمین و آسمان نے شاید اتنی بے غیرتی اور بے حیائی کا مشاہدہ نہیں کیا ہوگا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان اشیاء کو ضرورت کی حد تک محدود رکھی جائے چہ جائیکہ ہم ان کو لایعنی کاموں میں اس حد تک استعمال کرے۔،کہ نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا جائے ۔جدید آلات خصوصا انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے کس حد تک ہمارے نوجوان کی غیرت و حیا کو نیست و نابود کر دیا ہے ۔ان سکرینوں پر ہونے والے پروگرامز میوزک اور فلموں کے مہلک خیزگندے اور برے اثرات نے ہماری ماؤں بہنوں کی حیا کے جنازے کس حد تک نکال دیے ہیں۔
جنسی آزادی کی وہ صورتحال پیدا کی گئی ،کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ نوے فی صد ڈراموں میں خاندانی نظام کا مذاق اڑایا جارہاہے ۔ کھلم کھلا ایسے مناظر دکھائے جاہے ہیں جس میںلڑکی شادی سے بھاگ کر آشنا کے پاس چلی جاتی ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری نئی نسل اپنے والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہم پر ایسے نظریات مسلط کیے جارہے ہیں کہ جس سے معاشرے میں منفی رجحان فروغ پارہا ہے۔ لوگوں کی سوچ و فکر کو تبدیل کیا جارہا ہے، اب تو انسان کے دل سے خوف بھی نکل چکا ہے۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ایک دن ان کو اللّٰلہ کے حضور پیش ہونا ہے اور ہر عمل کا جواب دینا ہے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام مخالف قوتیں ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ آج زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔اگر بے حیائی و فحش فلموں اور ویڈیوز کی بات کی جائے تو اس کو دیکھنا،سننا اور لائک کرنا بھی حرام ہے۔انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکیوں کی اخلاقی قدروں کیساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر بھی کاری ضرب لگتی ہے۔ اس سلسلے میں والدین کو ہمیشہ بیدار رہنا چاہیے ۔کہ بیٹا یا بیٹی انٹرنیٹ پر کیاکیا دیکھ رہے ہیں۔۔ کمپیوٹر گھروں میں عموما ایک کونے اور آڑ میں رکھا ہوتا ہے۔ رات بھر کمپیوٹرچلتا رہتا ہے، والدین سمجھتے ہیں کہ پڑھائی ہو رہی ہے ۔جب کہ عموما پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے والدین کوبھی توفیق نہیں ہوتی ہے، کہ وقتا فوقتا اس کو چیک کرتے رہیں۔ یامخصوص فحش و غیر اخلاقی ویب سائٹوں کو بند کرا دیں۔بہتر ہوگاکہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو اس'معلوماتی ہائی وے' پر تنہا نہ چھوڑیں۔عموماجب معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو ہوش آتا ہے۔
اس وقت جب کہ انٹرنیٹ ایک اہم و بنیادی ضرورت بن چکا ہے ہم کسی کو بھی اس کے استعمال سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔کیونکہ ہمارے پاس اس کا کوئی دوسرا بدل نہیں ہے۔۔ٹیکنالوجی سے فائدہ ضرور حاصل کیجیے مگر اس کیساتھ ساتھ اس کے صحیح اور غلط استعمال کے فوائد اور نقصانات کو بھی پیش نظر رکھیں، اور اچھے لوگوں کی صحبت میں رہیے۔
بالخصوص پڑھا لکھا طبقہ، ان کے یہاں اگر بچوں کو انٹرنیٹ کے استعمال سے روکا جائے تو معلومات کے ایک اہم ذخیرہ سے وہ محروم رہیں گے معلومات کے حصول کی اتنی بڑی سہولت سے اگر آپ ان کو روکنا چاہیں تو یہ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اور حصول تعلیم کے ذرائع سے روکنے کا الزام بھی آپ کے سر لگادیا جائے گا۔
حد تو یہ ہے کہ میڈیا آج اشتہارات کے ذریعے بے حیائی اور عریا نیت اور بے شرمی کو فروغ دینے کیلئے فحش مناظر کی ایسی اشاعت کرتی ہے کہ عقل حیران ہو جائے ایک طرف تو میڈیا ان جدید آلات کے ذریعے سکرینوں پر انتہائی نازیبا اشتہارات چلاتی ہے، تو دوسری جانب سڑکوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے سائن بورڈ پر حیا سوزتصاویر ہماری اجتماعی بے حسی و لاپرواہی کا خود اشتہار بن کر عذاب الہی کو دعوت دیتے ہیں ۔
اس لیے تمام والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے، کہ وہ خاص طور پر سوشل میڈیا پر بیکار وقت گزاری کرنے کے بجائے زیادہ وقت اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور اسے ایک اچھا انسان بنانے میں لگائیں تا کہ یہ بچے اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک بن سکیں۔