1801 میں شاہ شجاع جو کہ گورنر پشاور تھا، کی حکومت پر دوست محمد خان کا قبضہ ہوگیا، اور یہاں پر سردار فتح محمد خان وزیر گورنر بن گئے، 1803 میں انہوں نے دورانی قبرستان کے قریب ایک وسیع رقبہ پر ایک باغ تعمیر کروایا ، دوست محمد خان نے یہاں مختلف پھلوں کے درخت لگوائے جن میں خوبانی، آڑو، انار، اور ناشپاتی وغیرہ شامل تھے ، یہاں پھلدار درختوں کے علاوہ پیپل کے گھنے سایہ دار درخت تھے ، جن کا سایہ گرمی کی تپتی دوپہر میں بھی کالے بادلوں کا منظر پیش کرتاتھا، او ر باغ گلابوں اور مختلف پھولوں کی خوشبو سے معطر رہتا، اس باغ میںحوض بنوائے گئے اور فوارے لگوائے گئے تھے، جو کہ باغ کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے تھے،باغ کے ارد گرد درختوں کی بہتات تھی، اور آس پاس کے علاقے میں مختلف باغات تھے، جن میں بیری باغ، اور باغ بردہ قص جو کہ اب رہائشی بستی میں تبدیل ہو چکے ہیں، اسکے علاوہ تیلیوں کا باغ اور چھانڑنی کا باغ اب شہر خموشاں میں تبدیل ہو گیا ہے، اس سے اندازہ لگائیں کہ ماضی میں وزیر باغ کی کیا شان و شوکت ہوگی ، الیکذنڈر برنس، جن کانام برطانوی گریٹ گیم میں قابل ذکر ہے ، نے اپنی کتاب ٹریول انٹو بخارہ میں پشاور کے باغات کے علاوہ وزیر باغ کا ذکر بھی بہت خوبصورتی سے کیا ہے ، 1832 میں اپنے ایک دورے کے دوران وہ لکھتے ہیں کہ '' ایک جمعے کی دوپہر وہ گورنر سلطان محمد خان کیساتھ باغ گئے، جہاں سلطان محمد خان کے خاندان کے باقی لوگ بھی تھے، ان کے آگے تھال میں گنڈیریاں رکھی تھیں، باغ کا ماحول انتہائی خاموش اور خوبصورت تھا،اور فضا پھولوں کی خوشبوسے معطرتھی ، اسکے بعد وہ دورانی قبرستان گئے اوراپنے بھائیوں کی فاتحہ خوانی کی، اور پھر جمعے کی نماز قبرستان کے قریب مسجد میں پڑھی ''۔
قیام پاکستان کے بعد وقت کیساتھ ساتھ وزیر باغ کے اردگرد کے باغات ختم ہونے لگے ، رہائشی آبادیا ں بن گئیں، اور باغات تو کیا قبرستانوں پر بھی قبضے ہونے لگے، ہماری تہذیب و ثقافت پر جنگیں اثرانداز ہونے لگیں، اور وزیر باغ سکڑتا گیا، کبھی سکول کیلئے اور کبھی جنازہ گاہ کے نام پر اس کے قیمتی درختوں کو قتل کیا گیا ، اور قیمتی اراضی کو کنکریٹ میں تبدیل کر دیا گیا، پھر اسی باغ نے وہ وقت بھی دیکھا جب جمعے کی چھٹی کے روز یہاں مرغے، تیتر ، بٹیر اور کتے لڑائے جاتے تھے،پھر گذشتہ ادوار میں وزیر باغ میں جگہ جگہ اینٹوں کی دیواریں اور لوہے کے جنگلے لگا دئیے گئے اور ایک وسیع باغ کو تنگ گلیوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، درختوں اور سبزہ زارو ں کی بجائے دھول اڑاتے میدان ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وزیر باغ میں سردار فتح محمد خان کی روح بھٹک رہی ہو، جس کو اب باغ کا ردجہ بھی نہیں دیا جاسکتا، ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر باغ کو پارک میں تبدیل کرنے کی بجائے اس کی اصل حالت میں بحال کیا جائے، اس میں موجود اینٹوں اور لوہے کے جنگلوں کو ہٹا کر پودے اور درخت لگائے جائیں جس طرح باغات ہوتے ہیں،اگر ضرورت پڑے تو اس پر سیاست کرنے والوں کو کسی اچھے باغ کی سیر بھی کروائی جائے اسکے علاوہ نئے درخت لگائے جائیں اور باغ کو پھولوں اور پھل دار درختوں سے مزین کیا جائے، بعد ازاں اس پر ٹکٹ بھی لگایا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف انتظامیہ کو آمدن ہوگی بلکہ اہلیان پشاور کو ایک بہترین باغ بھی میسر ہوجائے گا۔