صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
بدھ 22 اکتوبر 2025 

آئیں پاکستان سنواریں

رعنا اختر | پیر 17 اگست 2020 

اس ملک کی بہتری کیلئے آپ کیا کر سکتے ہے ؟ عموما پوچھا جانے والا سوال جسے سنتے ہی نوجوان نسل ایک زور دار قہقہہ لگا کہ یوں اگنور کرتیں ہیں ، جیسے دودھ میں سے مکھی نکالی جاتی ہے ۔ ہر ایک یہی کہتا سنائی دیتا ہے بھئی میں کیا کر سکتا ہوں اس ملک کیلئے ؟؟؟
یہ سنتے ہی بہت سے سوال ذہن میں گونجتے ہیں کہ یہ ہماری نوجوان نسل ہے جس سے ہمیں بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ۔ لیکن آج کے نوجوان کی یہی سوچ ہے کہ وہ دو سال تک بیرون ملک شفٹ ہو جائے گے ۔ وہی پہ اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کوئی کاروبار شروع کر لیا جائے گا ۔۔۔ ویسے بھی اس پاکستان میں رکھا کیا ہے ؟؟؟ 
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے نوجوان نسل کسی بھی ملک و قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہوتی ہے یہ اپنے ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ، جب وہ ہی اپنے ملک کو چھوڑنے کی بات کرے گی تو دوسروں کا کیا حال ہو گا ؟؟ نوجوان نسل ہی ملک سے باہر شفٹ ہونے کی تنگ و دود میں لگ جائے تو پھر اس ملک کی حالت کیسے سنوریں گی ؟
یہ تو ایک بہت بڑا معاشی المیہ ہے ۔ آج ہم یہی سوچتے ہیں کہ یہ ملک کبھی سنورنے والا نہیں ہے ۔ نہ ہی ہم اس کو سنوارنا چاہتے ہیں ۔ چاہے کوئی آمر ہو ، یا کوء بھاری مینڈیٹ لے کر اقتدار اعلی تک پہنچنے والا ،جہاں الیکشن میں جیتنے کیلئے پیسہ سب سے اہم ہو ، جہاں پڑھے لکھے لوگ اس لیے الیکشن نہیں جیت سکتے کیونکہ ان کے پاس پیسے کی فروانی نہیں ہے اور نہ وہ اپنی مہم کو بنا پیسوں کے چلا سکتے ہیں ۔ جہاں ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے لوگ پیسوں کے عوض ووٹ کا غلط استعمال کرنا عام ہو وہاں رہ کہ ایک عام آدمی کرے بھی تو کیا کرے ؟؟
جہاں سفارش کا استعمال عام ہو ایک سوئی تک کیلئے سفارش ہو وہاں کیا کام ہو سکتا ہے ؟ جہاں سفارش اور رشوت کا چلن عام ہو وہاں پڑھے لکھے اور قابل لوگ ملازمت حاصل نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ ان کے پاس رشوت دینے کیلئے لاکھوں روپے نہیں ہیں ۔ پڑھے لکھے بیروزگاری کا شکار ہو کے رہ جاتے ہیں ۔ جہاں گھر سے باہر نکلیں تو یہ بھی یقین نہ ہو کہ گھر واپسی ہو گی کہ نہیں ۔ جہاں مار دھاڑ ، اور دہشتگردی عادت کی طرح اپنا لی جائے ۔
جہاں بیرونی قوتیں ہمارے نظام کی تخلیق کرتی ہو ، جہاں عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس کے رہ گیا ہو ، جہاں حکمران ٹیکسوں کا بوجھ صرف عوام پہ ڈالتی ہو ، اس ملک میں کیا رہنا ہے ہم اس ملک کو کیسے سنوار سکتے ہیں ؟؟
ہم ایک ایسی بے حس قوم بن چکی ہیں جنہوں نے غلط کو غلط سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ زندگی کی تنگ و دود میں ہم نے اسلام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہیں ۔ کیسے اس ملک کو ایک نئی ڈگر پہ چلایا جا سکتا ہے ؟؟
ہر کوئی اپنا پیٹ بھرنے کہ چکر میں ہے جہاں ملاوٹ عام ہو ، کوئی شے چاہے وہ کھانے کی ہو یا گھریلو استعمال کی وہ اپنی اصل حالت میں نہیں ملتی ہو وہاں ہم کیسے رہ سکتے ہیں ؟؟
کس طرح اس ملک میں سکون سے رہا جا سکتا ہے جہاں آئے روز ٹیلی ویژن پہ پروگرام چلتا ہے 
اور ہمیں علم ہوتا ہے کہ ہارے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے ؟؟؟ کیا حکمران یہ سب نہیں دیکھتے لیکن پھر بھی یہ سب کچھ ہوتا جا رہا ہے ۔ آخر کیوں اور کب تک ؟؟ اس ملک میں کیوں رہیں جہاں صرف ہمارے حکمران تب منظر عام پہ آتے ہیں جب انہیں ووٹ چاہیے ہوتے ہیں صرف ایک کرسی کیلئے وہ بائیس کروڑ عوام سے کھیل رہے ہیں ۔ وہ ووٹ لیکر بلکل بھول جاتے ہیں عوام کے مطالبات پورے کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا ۔
ہم نئی نسل کو جتنا لاپرواہ سمجھتے ہیں ۔ اتنا وہ ہے نہیں انہیں شاید ملک کے ابتدائی معلومات کا پتہ نہیں لیکن وہ حالات حاضرہ سے بالکل بھی بے خبر نہیں ہے ۔ آج کی نوجوان نسل سمجھتی ہے کہ کیا غلط ہے اور اس غلطی کے جڑیں کہاں ہے ؟ ہماری آزادی کا مقصد کیا تھا ؟ وہ اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو نہیں بھولے ہیں ۔ 
تہتر برس بیت چکے ہیں ۔ ہم تب سے آزاد ہے لیکن کیا ہم نے واقعی اس آزادی کو مثبت طور پہ استعمال کیا ہے ؟؟ اس ملک کو سنوارنے کیلئے کونسی خدمات سر انجام دی ہیں ؟؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال ہمارے زہن میں گونجتے ہیں ۔ حکمران کرپٹ ہیں یہ دوہائی تو ضرور دیتے ہیں کیا ہم نے اپنے گریبان میں جھانکا ہیں ؟؟ ہم کس قدر مخلص ہیں اپنے اور اپنے ملک کیساتھ ؟؟؟ ملک چھوڑ کے باہر شفٹ تو ہو رہے ہیں لیکن یہ کوئی حل ہے ۔ کیوں نہ ہم اس ملک کو سنوارے تاکہ ہمیں باہر جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ اپنے اپنے حصے کی شمع روشن کرے ، ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کرے ۔ صرف حکمران کو قصوروار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے ہمیں خود کو بھی بدلنا ہو گا ۔ اور دیے سے دیے کو جلانا ہو گا ۔ نظام کو تبدیل کرنے سے پہلے ہمیں خود کے اندر تبدیلی لانا ہو گی ۔ مشہور قول ہے ناں جیسی عوام ویسا حکمران ۔ اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔ ذرا سوچئے ۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔