اما م اہل سنت علامہ علی شیر حیدری صوبہ سندھ کے مشہور ضلع خیر پور میرس کے گوٹھ موسیٰ خان جاوریاں میں چانڈیو (بلوچ ) قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک دین دار اور نیک سیرت و کردار کے حامل رئیس محمد وارث خان کے ہاں 1963ء میں پیدا ہوئے ۔حضرت علامہ علی شیر حیدری کا نام ومقام سے دینی حلقوں میں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو گا جو واقف نہ ہو ،قدرت نے علم وفضل، حوصلہ وہمت ،صبر واستقامت غیرت وحمیت،جرات وشجاعت ،ذہانت ومتانت ،تدریس وخطابت وسیادت کے مختلف عناصر کو یکجا کردیا تھا۔
حضرت علامہ علی شیر حیدری شہید کی شخصیت اس قدر ہمہ گیر اور مختلف الجہات اور ہزاروں خوبیوں کا مرقع تھی ،ان میں سے ایک ایک وصف ایسا ہے جسے تحریر کرنے کے لیے کئی صفحات کی ضرورت ہے ۔آپ نہ صرف ایک عظیم لیڈر تھے بلکہ اعلیٰ پایا کے خطیب ومقرر بھی تھے اور لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں بسنے والے ایک محبوب ترین راہنما بھی ۔آپ کہیں مشرق سے لے کر مغرب تک دعوت اسلام اور ناموس رسالت وتقدیس ازواج مطہرات وعظمت صحابہ کرام رضوان اللّٰلہ اجمعین کے تحفظ کا پھریرا لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں ،تو کہیں جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم خیر پور میرس کے مشہور اسکول گورنمنٹ ناز ہائی سکول سے حاصل کی ۔میٹرک کے بعد جامعہ راشدیہ پیرو جو گوٹھ خیر پور میں داخلہ لیا،درس نظامی کی تکمیل جامعہ اشاعت القرآن لاڑکانہ سے کی جبکہ ٹھیڑی کے مشہور مدرسہ جامعہ دارالھدیٰ سے دورہ حدیث کیا ۔
علامہ علی شیر حیدری شہید نے زمانہ طالب علمی کے دوران ''حفظ قرآن'' کی سعادت حاصل نہیں کرسکے تھے لیکن جب انہیں ایک جعلی مقدمے کی بنیاد پر تین سال کی سزائے قید ملی تو انہوں نے جیل میں صرف تین ماہ کے قلیل عرصہ میں قرآن مجید فرقان حمید حفظ کرلیا ۔رہائی کے بعد کسی شکوے کے بجائے حاکم وقت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ '' اگر آپ مجھے جیل نہ بھیجتے تو شاید میں قرآن مجید کا حافظ نہ بن سکتا ''۔
علامہ علی شیر حیدری نے علماء کے اتحاد اور فروعی اختلاف کے خاتمے کے لیے شاندار اور تاریخ ساز جد وجہد کی ۔عدالت عظمیٰ پاکستان میں جسٹس سجاد علی شاہ کے سامنے اگست 1997ء میں علامہ نے ملت اسلامیہ کا جب موقف پیش کیا توچیف جسٹس اسلام کے خلاف اسلام کے روپ میں سازشوں کو دیکھ کر ورطہ خیرت میں ڈوب گئے ،علامہ نے عدالت عظمیٰ پاکستان کے سامنے ائمہ اہل سنت والجماعت اور مسالک اہل سنت والجماعت کی ترجمانی کا حق ادا کردیا ۔چیف جسٹس نے جب اسلام ،قرآن ،رسول اللّٰلہ ،اہل بیت اطہار ،صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے خلاف غلیظ قلم کی ناپاک جسارتیں دیکھیں تو فرط جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور عدالت میں ہی آبدیدہ ہوگئے ۔حضرت علامہ نے علماء ،وکلا ،سیاسی اور دینی جماعتوں اور شخصیات کے سامنے اپنا موقف کھلے انداز میں پیش کیا ،اور علامہ نے تپتی دھوپ میں وراثت پیغمبری کا علم اٹھایا اور اسلام کا حقیقی تصور عوام اور خواص کے قلب ودماغ میں گاڑ دیا ۔
اہل سنت والجماعة کی اساس قرآن کریم کے بعد سنت رسول اور صحابہ کرام کے تعامل پر ہے ۔اسی لیے وہ اہل سنت والجماعة کہلاتے ہیں ۔چنانچہ دین کی تعبیر وتشریخ میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰلہ تعالیٰ اجمعین کے اساسی مقام اور ان کے ناموس وحرمت کا تحفظ ودفاع ان کے فرائض کا حصہ ہے جس کے لیے مختلف حوالوں سے جد وجہد کا سلسلہ قرن اول سے جاری ہے ۔حضرات صحابہ کرام چونکہ قرآن وسنت کی صحیح تعبیر وتشریخ کا معیار ہیں اس لیے ان کی حرمت وعدالت کو مجروح ہونے سے بچانا اور ان کی ثقاہت وصداقت کو شک وشبہ سے بالا تر سمجھنا بھی اس کا ناگزیر تقاضا ہے ۔اور اسی وجہ سے ان کے ناموس اور عدالت کے دفاع وتحفظ کو اہل سنت نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں میں شمار کیا ہے ۔
حضرت عبد اللّٰلہ بن مسعود کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ '' تم میں سے جو شخص کسی کی اقتداء کرنا چاہتا ہے تو تو اس کی اقتداء کرے جو فوت ہو چکا ہے اس لیے کہ زندہ شخص کسی وقت بھی فتنہ میں مبتلا ہوسکتا ہے ۔وہ اقتداء کے قابل لوگ اصحاب محمد ہیں جو سب سے کم تکلف والے ہیں ۔اللّٰلہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت ورفاقت کے لیے اور اپنے دین کی امامت کے لیے چنا ہے ،پس ان کے نقش قدم پر چلو اور ان کے طریقوں کی پیروی کرو کیونکہ وہی ہدایت اور صراط مستقیم پر ہیں ''۔حضرت عبد اللّٰلہ بن مسعود کا یہ ارشاد گرامی اہل سنت کے عقیدہ وعمل کی اساس ہے اوراسی کو وہ حق اور ہدایت کا معیار سمجھتے ہیں ۔حضرات صحابہ کرام کے تمام طبقات مثلا مہاجرین ،انصار ،اہل بیت ،ازواج مطہرات اور فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے صحابہ کرام کے ساتھ یکساں محبت وعقیدت کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان حفظ ومراتب اور درجات فضیلت کا لحاظ رکھنا بھی اہل سنت کے جذبات ایمانی کا حصہ ہے اس سلسلہ میں کسی بھی افراط تفریط سے گریز کو وہ اپنے ایمان کا تقاضا سمجھتے ہیں اور بوقت ضرورت اس کے اظہار کو بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔
حضرت علامہ علی شیر حیدری اپنے پیش رو قائدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے توہین صحابہ واہل بیت اطہار رضی اللّٰلہ عنھم کو روکنے کے لیے بڑی جرات و استقامت کے ساتھ آگے بڑھے اور اہل سنت کے مذہبی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے 17اگست 2009ء کی رات دو بجے تک خیر پور میں تزکیہ نفس اور تطہیر فکر وقلوب کی مجلس میں مصروف رہے ،رات کے آخری پہر اپنے گھر کی طرف روانگی کے لیے نکلے تو راستے میں گھات لگاکر بیٹھے دہشت گردوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس سے حضرت علامہ علی شیر حیدری اور ان کے ڈرائیور راہ وفا میں قربان ہوگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔