اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو تحریک پاکستان کی بنیاد حضرت مجدد الف ثانی، شیخ احمد سرہندی نے رکھی تھی جنہوں نے برطانوی سامراج کیخلاف جھکنے سے انکار کر دیا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے نظریہ اسلام کو سر بلند کیاجو پاکستان کی اساس ہے۔اورنگزیب عالمگیرکی وفات کے بعد شاہ ولی اللّٰلہ نے اس کو آگے بڑھایا ۔ انیسوی صدی کے پہلے نصب میں شاہ عبدالعزیز نے اس تحریک کو مزید متحرک کرتے ہوئے پھیلایا او راس کے بعد شاہ اسماعیل شہیداور سید احمد شہید نے برصغیر میں ایک سلامی ریاست کے قیام کیلئے اس تحریک کو جہاد ی تحریک میں بدل دیا۔انہوں پنجاب کے سکھ حکمرانوں کیخلاف جہاد کرتے ہوئے بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کو گلے لگایا۔ وقت کیساتھ ساتھ اسلامی ریاست کے قیام کا نظریہ مضبوط ہو تا گیا جو قیام پاکستان کی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوا۔ برصغیر کے علماء اور مشائخ نے آزادی پاکستان کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔علماء کرام اور سیاست کی تا ریخ کافی پرانی ہے۔چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ سلسلوں اور ان کے مریدین نے دو قومی نظریہ کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی ۔آزادی پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے علماء و مشائخ کا احاطہ کرنا ممکن نہیں تا اہم اس گلدستہ آزادی کے چند ناموں میں مولانا شبیر احمدعثمانی،مولانا اشرف علی تھانوی،مولانا عبداحامد بدونی، مفتی محمد شفیع، مولانا ابراہیم سیالکوٹی،پیر غلام مجدد سرہندی،امین الاحسنات ، پیر صاحب مانکی شریف،پیر صاحب زکوری شریف،پیر جماعت علی شاہ، ثناء اللّٰلہ امرت سری، مولانا رشید احمد گنگوئی اور اس گلدستہ کے بے شمار دیگر علماء و مشائخ شامل ہیں۔ 1857کی جنگ آزادی کے بعد علماء اور مشائخ نے تعلیمی درسگاہوںکا قائم کرتے ہوئے اس بات پر دھیان دیا تاکہ وہ نئی نسل کو اسلام کے تحفظ کیلئے تیار کر سکیں۔ کچھ علماء کرام نے خفیہ طریقے سے سیاسی اور بیداری کی جدوجہد جاری رکھی۔1914میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی، برطانیہ نے مسلمانوں کے مقدس مقامات کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی مگر یہ وعدہ وفا نہ ہو اجس کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں نے تحریک خلافت شروع کی۔ریشمی رومال تحریک کا اس ضمن میں کافی اہم کردار ہے۔تقریبا تمام علماء و مشائخ تحریک خلافت کا حصہ بنے۔ اس وقت علماء کرام کے پاس کوئی سیاسی پلیٹ فارم موجود نہیں تھا، انہوں نے اس بات کو محسوس کیا کے مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی تربیت اسلام کی روشنی میں کی جائے۔دیوبند کے علماء نے 1919میں جمعیت علماء ہند کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا۔علماء کی اتحاد سے تحریک خلافت دور دور تک پھیل گئی۔ہندو مسلم اتحاد کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر جمعیت علماء دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔1938میں مولانا اشرف علی تھانوری کے بھیجے ہوئے ایک وفد کی قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات ہوئی اور کانگرس مخالف علماء نے مسلم لیگ کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔آل انڈیا مسلم لیگ نے 4 دسمبر 1938 کو ایک قرار داد منظور کی گئی جس کے زریعے تحریک آزاد ی میں علماء کے کردار اور مسلمانوں کی بیدار ی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ علماء نے ہندوذہنیت کو بھانپتے ہوئے قیام پاکستان کے مطالبے کی حمایت کر نا شروع کر دی۔ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ نے علماء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیاور نظام حکومت کے بارے مسودہ تیار کرنے کا کام اس کمیٹی کے سپردکیا گیا۔ 1942میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مملکت پاکستان کی قیام قرآن و سنت کے اصولوں پر قائم کرنے کا اعلان کیا۔ علماء اور مشائخ کے اس عمل سے کانگرس کی حمایتی علماء بھی مسلم لیگ میں شامل ہو کر تحریک آزادی پاکستان کو تقویت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1945 کوعلماء کے ایک بڑے اجتماع میں جمعیت علمای اسلام کی بنیاد رکھی گئی جو تحریک آزادی پاکستان میں اہم ثابت ہوئی۔ قرارداد مقاصد تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ کے کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علماء کرام نے تبلیغ، بیداری اور جہاد کیساتھ اپنے فتووں اور قلمی جہاد کے زریعے بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں جن کی وجہ سے علماء ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا شرو ع ہوئے اور قیام پاکستان کو ناگزیر بنا دیا ۔علماء سرحدنے قیام پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔علماء نے آزادی پاکستان کیلئے کام کرتے ہوئے مسلمانوں کا ہندوں اور انگریزوں کی سازشوں سے بھی آگاہ رکھا۔سرحد میں ہو نے والی رائے شماری اور الحاق پاکستان میں علماء کا کردار سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ سلہٹ بنگال میں ہونے والی رائے شماری اور الحاق میں بھی علماء کا کردار علماء کے تاریخی کردار کا ثبوت ہے۔ 1946 کو بنارس میں ہونے والی سنی کانفرنس میں قیام پاکستان کے مطالبے کی حمایت میں قرار دادپیش کی گئی۔ خان عبدالغفار خان کیخلاف پیر مانکی صاحب نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے تکمیل پاکستان کو یقینی بنایا۔ سندھ کے علماء بھی کسی طور بھی پیچھے نہیں تھے۔شیخ عبدالمجید سندھی اور جناب سرہندی نے اہم کردار ادا کیا ۔سندھ، پنجاب، بلوچستان اورکے پی کے علماء کرام کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔
٭٭۔۔۔۔٭٭