مسلم معاشرے میں مسجد کی حیثیت حیثیت روح کی سی ہے۔ اس کے بغیر معاشرے میں زندگی باقی نہیں رہ سکتی۔ مسجد کے بغیر کسی مسلم بستی کا تصور محال ہے ۔مسجد کی عمارت اس بستی میں ایمان اور اسلام کا پتا دیتی ہے ۔مساجد مرکزی ادارہ یا پاور ہاؤس ہے ،جن سے مسلم معاشرے کے ہر فرد کو قوت اور رہنمائی ملتی ہے ۔مساجد ہی کی وجہ سے مسلم بستیوں کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام مساجد مسجدالحرام کی شاخیں ہے۔ اس لئے بجا طور پر ان کو اللّٰلہ کا گھر کہا جاتا ہے۔ مساجد اتحاد امت کی علامت ہے ،جو تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک قبلہ سے جوڑتی ہے۔ اور ان کے سفر کا سمت متعین کرتی ہے ۔ یہی مسجد ہے جہاں مسلمانوں کو روشن اور مدلل شریعت پر چلنا آسان بنایا جاتا ہے۔ یہی سے اخلاص و عمل اور خیر کے کاموں پر ابھارا جاتا ہے اور دنیا و آخرت کو سنوارا جاتا ہے ۔یہ جھوٹ اور بہتان، سود اور رشوت، بغض و نفرت، شرک و کفر، غیبت و بدگمانیوں، ریاکاری و شراب نوشی ،باہمی عداوت و تجسّس اور کینہ و حسد کا صفایا کرتی ہے
اسلام کی پوری تاریخ مسجدوں سے وابستہ ہے،حقیقت تو یہ ہے کہ مسجد نبوی اسلامی حکومت کا پارلیمنٹ تھی، اور وہ اس دور کی سب سے بڑی اسلامی طاقت تھی، بڑے بڑے سارے فیصلے مسجد نبوی سے صادر ہوتے تھے۔ یہ مسجدیں بچوں اور خواتین نیز تمام مسلمانوں کی تربیت گاہیں تھیں انہیں میں اسلامی فوج کو بھی تربیت دی جاتی تھی۔ان مسجدوں میں ہونے والی نمازیں اور جمعہ کے خطبات اس دور میں کانفرنسوں کا رول ادا کرتے تھے۔ان میں ہر نسل اور ہررنگ کا انسان جمع ہوتا تھا اور محبت کا پیغام ساری دنیا میں عام کرتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مساجد کا تقدس ہمارے مذہب کی اساس میں شامل ہے۔ناصرف مساجد بلکہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا بھی ہم احترام کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جنگوں کے بعد بھی کسی کلیسا کسی گرجے کی بے حرمتی نہیں کی گئی۔ لیکن گزشتہ کئی سال سے ہم مختلف مساجد میں نو بیاہتا جوڑوں کے سیر سپاٹے دیکھتے آئے ہیں۔ یہ نظارہ عام دیکھنے کو ملتا ہے کہ جوڑے باہوں میں بانہیں ڈالے مسجد کے احاطے میں اٹھکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ستم در ستم یہ ہے کہ لاہور کی تاریخی جامع مسجد وزیر خان کے تقدس کو گانے کی شوٹنگ کرکے پامال کیا گیا ہے۔ مساجد جو کہ اللّٰلہ کا گھر اور عبادت کیلئے ہیں وہاں پر یوں فحش گانے کے ویڈیو شوٹ سے بڑھ کر گھٹیا حرکت اور کیا ہو گی۔باقاعدہ محکمہ اوقاف کی اجازت سے موسیقی کے پروگرام کی شوٹنگ ہوئی ۔اس سے پہلے بھی کئی بار اسی مسجد کا تقدس پامال ہوا ہے۔ محکمہ اوقاف اس سے پہلے بھی کئی بار مسجد کرائے پر دے چکی۔کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بے حسی اور لاپرواہی کی انتہا ہے۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کو اس قبیح فعل کی مذمت کو بھی برداشت نہیں ہورہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مساجد میں دیگر کئی قبیح افعال کو نہیں روکا جاتا تو اس فعل پر بھی زیادہ احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔ حالانکہ ہر بات کا الگ موقع ہوتا ہے۔ اب اگر وزیر خان مسجد میں کوئی برا ہواہے تو مذمت بھی اسی کی ہوگی۔ احتجاج بھی اسی پر ہوگا۔ پہلے اگر کسی مسجد میں کچھ غلط ہوا تھا تو اس موقع پر اس کی مذمت ہونی چا ہیے تھی۔ اگر نہیں ہوئی تو اس سے مساجد میں ہر غلط کام جائز نہیں ہوجائے گا۔
آپ میں سے بہت سے لوگوں نے فیصل مسجد کی ''سیر '' ضرور کی ہوگی، وہاں تو حالات کچھ یوں ہیں کہ مرد و خواتین کا مخلوط طریقے سے گھومنا پھرنا عام معمول ہے ۔باہر ایک نوٹس بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے کہ'' خواتین شرعی پردے میں رہیں''بس اس بورڈ لگانے کے بعد مسجد کی انتظامیہ کی ذمہ داری ختم۔مسجد میں خواتین شرعی پردہ تو درکنار دو پٹہ سے بھی کنارا کرتی نظر آتی ہیں۔ چار سُو پھیلے مرد و خواتین مسجد کے اندر پردے کی دھجیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں، چادر دوپٹہ سے عاری خواتین، ننگے سر، کھلے ہوئے گریبان، اور گھٹنوں تک پاجامہ چڑھانے ، ٹائٹ جینز پہنے مسجد میں ایسے گھومتی نظر آتی ہیں جیسے شادی ہال میں ولیمہ کھانے آئی ہوں۔ پھر سیلفیاں، ٹک ٹاک، فوٹو شوٹ جس کا میں خود عینی شاہد ہوں۔ہائے افسوس......کیا مسجد اسی کام کیلئے رہ گئی ہے۔؟ نماز کے وقت بیس فیصد لوگ نماز پڑھتے ہیں باقی سب موج مارتے منہ اٹھا کے پھرتے ہیں۔اور تو اور مسجد میں غیر شرعی جوڑوں کو بھی بہت بار دیکھے جاتے ہیں ۔
میں حیران ہوں مندر کے حوالے سے مذہبی غیرت کا اظہار کرنے والے بادشاہی مسجداور فیصل مسجد کی دن رات ہونے والی بے حرمتی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس '' دوغلے '' کردار پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں فورسز کی وردی میں سوشل میڈیاپر ویڈیواپلوڈ کرنے پر نوکری ختم ہو سکتی ہے کیونکہ وردی کی توہین کی۔ کسی ادارے کے بارے پوسٹ پر گرفتاری ہو جاتی ہے۔ سیاسی لیڈر کے بارے اظہار خیال پر بھی قانون حرکت میں آتا ہے لیکن مساجد کے تقدس کی پامالیاور ان میں فحاشی و عریانی پھیلانے پر کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتظامیہ کیا کر رہی ہے ....؟نتظامیہ کے بس سے یہ بات باہر ہے یہاں وہ ٹھیکیدار ذمہ دار ہیں جو مذھبی امور کی وزارتوں کی تنخواہیں کھا رہے ہیں ان کی آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے ہوں ۔ترکی میں بھی متعدد تاریخی مساجد موجود ہیںسوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہاں ایسی کوئی حرکت دیکھنے میں آئی ہو۔ وہاں کی عوام انتباہ کے بورڈ پڑھ کر اندر جاتی ہے ، نظام بھی ایسا ہے کہ ایک ہی بار سمجھاتے ہیں سمجھ نہ آئے تو پکڑ کے بھی لے جاتے ہیں،حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان مقدس مقامات کو اس فحاشی وعریانی سے صاف کریں اور مساجد کو ان کے شان کے مطابق مقام دیں ۔