صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
بدھ 22 اکتوبر 2025 

جہیز، خاندان کیلئے ایک عظیم چیلنج

عبدالطیف حقانی | پیر 10 اگست 2020 

آج کل جن بیہودہ رسموں نے ہمارے معاشرے میں جگہ پکڑی ہے ان میں ایک حد درجہ گھٹیا اور نوجوان لڑکیوں کی زندگیوں کیلئے زہر قاتل جہیز ہے جس میں نہایت بے غیرتی بے شرمی اور بے حیائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، طرح طرح فرمائشوں کی تکمیل پر رشتے کو موقوف رکھا جاتا ہے، اس غیر انسانی اور نا معقول رواج نے آج سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بچیوں اور جوان لڑکیوں کو گھروں میں بغیرشادی گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے، کتنے غریب ماں باپ ہیں جن کی راتوں کی نیندیں خراب ہو گئی ہیں۔جن کی تلاش کیلئے ساری دنیا گھوم رہے ہیں حالانکہ ان کی زندگی کا سکون ہمارے نوجوان لڑکوں نے چھین رکھا ہے، آج دنیا میں جہیزکی لالچ طمع اور کمینہ پن سے بڑھ کر کوئی مثال نہیں ہوسکتی، حالانکہ اس رسم و رواج کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے، 
مروجہ جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ جس نے معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔ ان کی آرزؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ ایک رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کر لے لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں اور وہ وقت گزرنے کیساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما لیتی ہیں ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔ درحقیقت جہیز خالص ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے مشہور ہے جسے آج ہمارے مسلم معاشرے نے اپنا لیا ہے۔ اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لئے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونیوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ 
یہ درست ہے کہ کچھ سال قبل جن اشیاء کو قیمتی شمار کیا جاتا تھا وہ آج معمولی ضروریات زندگی بن چکی ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے والدین کو قرض کے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔ اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو آج کل انسان ایک سائنسی دور سے گزر رہا ہے۔ بالخصوص ہمارے معاشرے میں غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں وہ محض رینگتے کیڑے مکوڑے ہیں جنہیں ہر کوئی مسلتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ غریب کے گھر اگر بیٹی پیدا ہو جائے تو ایک طرف خدا کی رحمت اور جب شادی کی عمر کو جائے تو زحمت بن جاتی ہے کیونکہ لڑکے والے جہیز کا تقاضا کرتے ہیں۔ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت اگر کچھ تحفے دیتے ہیں تو اسے جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے محبت و تعلق کی بناء پر فطری عمل ہے لیکن موجودہ دور میں ان تحائف کی جو حالت بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ ماں باپ کے ان تحفوں کو لڑکے والوں نے فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے اور پورا نہ ہونے پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ سماجی رسم ہوا کرتی تھی آج جہیز بن گیا ہے۔ اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جا سکتے۔ 
حکومت کو چاہیے کہ ایک قانون بناے،جس سے جہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے اور جو اس جرم کا ارتکاب کرے گا اسے جیل اور بھاری جرمانے کئے جائیں تاکہ ایسا کوئی آئندہ گھناؤنا مطالبہ نہ کرے۔ اس کو ختم کرنے کیلئے سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کیلئے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے۔ لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائیداد وغیرہ فروخت کرکے جہیز کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیراسلامی رسمیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے سماج میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے۔ امراء کیلئے کوئی بات نہیں لیکن غریبوں کیلئے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں اور ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ جہیز کا لین دین غیراسلامی ہے۔ اس گھناؤنی غیراسلامی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دے اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کرے۔
 نہ اب یہ ہدیہ رہا،نہ صلہ رحمی؛ بلکہ ناموری اور شہرت اور رسم کی پابندی کی نیت سے کیاجاتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جہیزکے سامان کا اعلان ہوتا ہے،متعین اشیا ہوتی ہیں، خاص طرح کے برتن بھی ضروری سمجھے جاتے ہیں، جہیز کے اسباب بھی معین ہیں کہ فلاں چیز ضروری اور تمام برادری اور گھر والے اس کو دیکھیں گے، جہیز کی تمام چیزیں مجمع عام میں لائی جاتی ہیں اورایک ایک چیز سب کو دکھلائی جاتی ہے اور زیور اور جہیز کی فہرست سب کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ آپ خود فرمائیے یہ پوری ریا دکھلاوا ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ زنانہ کپڑوں کا مردوں کو دکھلانا کس قدر غیرت کیخلاف ہے۔
اگر صلہ رحمی مقصود ہوتی تو جو میسر آتا اور جب میسر آتا بطور تحفہ کے دے دیتے۔
اسی طرح ہدیہ اور صلہ رحمی کیلئے کوئی شخص قرض کا بار نہیں اٹھاتا؛ لیکن ان دونوں رسموں کو پورا کرنے کیلئے اکثر اوقات مقروض بھی ہوتے ہیں گوسود ہی دینا پڑے اور گو باغ ہی فروخت یا گروی ہوجائے پس اس میں نمایش اور شہرت اور اسراف وغیرہ خرابیاں موجود ہیں؛ اِس لیے اب اس کا سدباب لازمی ہوگیا ہے۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔