صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 24 اکتوبر 2025 

عقیدئہ ختم نبوت مختصر قرآن وحدیث کی روشنی میں

طلحہ ارشاد | جمعہ اگست 2020 

ختم نبوت کے مبارک کاذکیلئے قربانی کی اہمیت کااس سے اندازہ لگائیں کہ مؤرخین نے لکھاہے کہ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں جتنی جنگیں کفارکیساتھ ہوئیں ان سب میں 259صحابہ کرام شہیدہوئے۔جبکہ 759کافرقتل ہوئے۔اورختم نبوت کے تحفظ کیلئے ایک جنگ یمامہ میں جوجھوٹے مسیلمہ کذاب اوراس کے لشکرکیخلاف خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللّٰلہ عنہ کے حکم سے حضرت خالدبن ولیدرضی اللّٰلہ عنہ کی قیادت میں ہوئی تقریبا1200صحابہ کرام رضی اللّٰلہ عنھم شہیدہوئے جن میں 700حفاظ وقراء کرام تھے۔
دیکھئے صدیق اکبراورصحابہ کرام رضی اللّٰلہ عنھم کے نزدیک ختم نبوت کاتحفظ کتنااہم تھا کتنی بڑی قربانی اس کیلئے پیش کی فجزاھم اللّٰلہ عناخیرالجزائ(تحفظ ختم نبوت کی صدسالہ تاریخ صفحہ 11)اللّٰلہ تبارک وتعالیٰ ہم میں سے ہرایک کوختم نبوت کے اس مبارک کاذمیں اپنابھرپورحصہ ڈالنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔
قرآن مجیدنے جہاں اللّٰلہ تعالیٰ کی توحیداورقیامت کے عقیدہ کوہمارے ایمان کاجزولازم ٹھہرایا،وہاں انبیاء علیہم السلام کی نبوت ورسالت کااقرارکرنابھی ایک اہم جزوقراردیاہے،اورانبیاء کرام کی نبوتوں کوماننااوران پرعقیدہ رکھناویسے ہی اہم اورلازم ہے جس طرح اللّٰلہ تبارک وتعالیٰ کی توحیدپر۔
قرآن مجیدکواول سے آخردیکھ لیجئے،جہاں کہیں ہم انسانوں سے نبوت کواقرارکروایاگیاہواورجس جگہ کسی وحی کوہمارے لیے ماننالازمی قراردیاگیاہے وہاں صرف پہلے انبیاء کرام کی نبوت ووحی کاذکرملتاہے۔آنحضرت محمد صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے بعدکسی کونبوت حاصل ہواورپھراس پراللّٰلہ تبارک وتعالیٰ کی وحی نازل ہو،کہیں کسی جگہ پراس کاذکرتک نہیں،نہ اشارة نہ کنایة،بلکہختم نبوت کوقرآن مجیدمیں کھلے لفظوں میں بیان فرمانا صاف اورروشن دلیل ہے کہ آنحضرت محمدصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے بعدکسی کوبھی نبوت یارسالت عطانہ کی جائے گی۔
ذیل میں دی گئی آیات پرغورفرمائیے
1۔۔۔اَلَّذِیْنَ یُومِنُونَ بِمَااُنزِلَ اِلَیکَ وَمَااُنزِلَ مِن قَبلِکَ وَبِالاٰخِرةِ ھُم یُوقِنُونَ(بقرة:4)
ترجمہ:ایمان لائے اس پرکہ جوکچھ نازل ہواتیری طرف اوراس پرکہ جوکچھ نازل ہواتجھ سے پہلے اورآخرت کووہ یقینی جانتے ہیں۔
2۔۔۔لٰکِنِ الرٰسِخُونَ فِی العِلمِ مِنھُم وَالمُؤمِنُونَ بمآ اُنزِلَ اِلَیکَ وَمَآ اُنزِلَ مِن قَبلِکَ(نسائ:162) 
ترجمہ:لیکن جوپختہ ہیں علم میں ان میں اورایمان والے،سومانتے ہیں جونازل ہواتجھ پراورجونازل ہواتجھ سے پہلے۔
3۔۔۔کَذٰلِکَ یُوحِی اِلَیکَ وَاِلَی الذِینَ مِن قَبلِکَ اللّٰلہُ العَزِیزُالحَکِیمُ(شوریٰ:3)
ترجمہ:اسی طرح وحی بھیجتاہے تیری طرف اورتجھ سے پہلوں کی طرف اللّٰلہ زبردست حکمتوں والاہے۔
مذکورہ تمام آیتوں میں اللّٰلہ تبارک وتعالیٰ نے صرف ان کتابوں،الہاموں اوروحیوں کی اطلاع دی ہے اورہم سے صرف انہی انبیاء کرام کوماننے کاتقاضہ کیاہے جوآنحضرت محمدصلی اللّٰلہ علیہ وسلم سے پہلے گزرچکے اوربعد میں کسی نبی کاذکرنہیں فرمایا۔یہ تین آیتیں لکھی گئی ہیں۔ورنہ قرآن میں اس نوعیت کی اوربھی بہت سی آیتیں ہیں۔
''خاتم النبیین کی قرآنی تفسیر''
قرآن کریم کی روسے اس کاکیاترجمہ وتفسیرکی جائے،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ''ختم''کامادہ قرآن میں سات مقامات پراستعمال ہواہے۔
1۔۔۔ خَتَمَ اللّٰلہُ عَلیٰ قُلُوبِھِم(سورة بقرة:7) ترجمہ:مہرکردی اللّٰلہ نے ان کے دلوں پر۔
2۔۔۔ خَتَمَ عَلیٰ قُلُوبِکُم(سورة انعام:46) ترجمہ:اورمہرکردی تمہارے دلوں پر
3۔۔۔ خَتَمَ عَلیٰ سَمعِہ وَقَلبِہ(سورة الجاثیہ:23) ترجمہ:مہرکردی اس کے کان پراوردل پر
4۔۔۔ اَلیَومَ نَختِمُ عَلیٰ اَفوَاھِھِم(سورة یٰسن:65) ترجمہ:آج ہم مہرلگادیں گے ان کے منہ پر
5۔۔۔ فَاِن یَّشَائِاللّٰلہُ یَختِمُ عَلیٰ قَلبِکَ (سورة الشوریٰ:124) ترجمہ:سواگراللّٰلہ چاہے مہرکردے تیرے دل پر
6۔۔۔ رَحِیق مَختُوم(سورة مطففین:25) ترجمہ:مہرلگی ہوئی
7۔۔۔ خِتَامُہ مِسک(سورة مطففین:26) ترجمہ: جس کی مہرجمتی ہے مشک پر
ان ساتوں مقامات کے اول آخرسیاق وسباق کودیکھ لیں '' ختم''کے مادہ کالفظ جہاں کہیں استعمال ہوا ہے ان تمام مقامات پر قدرمشترک یہ ہے کہ کسی چیزکوایسے طورپربندکرنا۔اس کی ایسی بندش کرناکہ باہرسے کوئی چیزاس میں داخل نہ ہوسکے اوراندرسے کوئی چیزباہرنہ نکالی جاسکے۔وہاں پر'' ختم''کالفظ استعمال ہواہے،مثلاپہلی آیت کودیکھیں کہ اللّٰلہ تعالیٰ نے ان کافروں کے دلوں پرمہرکردی۔ کیامعنیٰ؟کہ کفران کے دلوں سے باہر نہیں نکل سکتا اورباہرسے ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوسکتا۔توفرمایا:ختم اللّٰلہ علی قلوبھم۔ 
اب زیربحث آیت خاتم النبیین کااس قرآنی تفسیرکے اعتبارسے ترجمہ کریں تواس کامعنیٰ ہوگاکہ رحمت دوعالم حضرت محمدصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی آمدپراللّٰلہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام کے سلسلہ پرایسی بندش کردی،مہرلگادی کہ اب کسی کونہ اس سلسلہ سے نکالاجاسکتاہے اورنہ کسی نئے شخص کوسلسلہ نبوت میں داخل کیاجاسکتاہے۔
قرآن کریم کے بعدجب ہم محمدعربی ۖ کی احادیث کامطالعہ کرتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت محمدصلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے متواتر احادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کااعلان فرمایااورختم نبوت کی ایسی تشریح بھی فرمادی کہ اس کے بعدآپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے میں کسی شک وشبہ اورتاویل کی گنجائش نہیں رہی۔متعدداکابرنے احادیث ختم نبوت کے متواترہونے کی تصریح کی ہے۔چنانچہ حافظ ابن حزم ظاہری لکھتے ہیں:ترجمہ:وہ تمام حضرات جنہوں نے آنحضرت محمدصلی اللّٰلہ علیہ وسلم
 کی نبوت،آپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے معجزات اورآپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی کتاب(قرآن مجید)کونقل کیاہے۔انہوں نے یہ بھی نقل کیاہے کہ آپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے یہ خبردی تھی کہ آپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہیں۔(کتاب الفصل ج1ص77)
1۔ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰلہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اورمجھ سے پہلے انبیاء کرام کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین وجمیل محل بنایامگراس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی،لوگ اس کے گردگھومنے اورعش عش کرنے اوریہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگادی گئی؟آپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے فرمایامیں وہی(کونے کی آخری)اینٹ ہوں اورمیں نبیوں کوختم کرنے والاہوں (بخاری کتاب المناقب ج1ص51،مسلم ج2 ص248)
2۔ حضرت جبیربن مطعم رضی اللّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کوخودیہ فرماتے ہوئے سناہے کہ میرے چندنام ہیں میں محمدہوں،میں احمدہوں،میں ماحی یعنی مٹانے والاہوں کہ میرے ذریعہ اللّٰلہ تعالیٰ کفرکومٹائیں گے،اورمیں حاشریعنی جمع کرنے والاہوں کہ لوگ میرے قدموں پراٹھائے جائیں،اورمیں عاقب یعنی سب کے بعدآنے والاہوں کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں۔(مشکوٰة ص515)
3۔ ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللّٰلہ علیہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت ورسالت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعدنہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔(ترمذی ج2ص53)
قرآن وحدیث کے بعدجب ہم حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰلہ علیہم اجمعین کی سیرت کامطالعہ کرتے ہیں تووہاں سے بھی ہمیں یہی مذکورہ معلومات حاصل ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی تاریخ میں یہ بات درجہ تواتر کوپہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے آنحضرت محمدصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دعویٰ نبوت کیااورایک بڑی جماعت اس کی پیروہوگئی۔آنحضرت محمدصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعدسب سے پہلی مہم جہادجوصدیق اکبررضی اللّٰلہ عنہ نے اپنی خلافت میں روانہ کی،وہ اسی کی جماعت کی سرکوبی کیلئے تھی۔جمہورصحابہ نے اس کومحض دعوائے نبوت کی وجہ سے اوراس کی جماعت کواس کی تصدیق کی وجہ سے کافر سمجھا اورباجماع صحابہ وتابعین ان کیساتھ وہی معاملہ کیاگیا جوکفارکیساتھ کیاجاتاہے اوریہی اسلام میں سب سے پہلااجماع تھا۔حالانکہ مسیلمہ کذاب بھی مرزاقادیانی کی طرح آنحضرت محمدصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی نبوت اورقرآن کامنکرنہ تھا،بلکہ بعینہ مرزاقادیانی کی طرح آپ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی نبوت پرایمان لانے کیساتھ اپنی نبوت کامدعی تھا۔الغرض نبوت،قرآن پرایمان،نماز،روزہ سب کچھ تھا مگرختم نبوت کے بدیہی مسئلہ کے انکار اوردعویٰ نبوت کی وجہ سے باجماع صحابہ کرام کافرسمجھا گیا۔
 ''خلاصہ کلام '' 
1۔مسئلہ ختم نبوت قرآن مجید کی ننانوے آیات وبینات سے ثابت ہے۔
2۔ مسئلہ ختم نبوت دوسواحادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
3۔مسئلہ ختم نبوت تواتر سے ثابت ہے۔
4۔ مسئلہ ختم نبوت اجماع امت سے ثابت ہے۔
5۔ مسئلہ ختم نبوت پر امت کاسب سے پہلااجماع منعقدہوا۔
6۔مسئلہ ختم نبوت کیلئے بارہ سوصحابہ کرام نے جامِ شہادت نوش فرمایا،جن میں سات سوحافظ وقاری اوربدری صحابہ تھے۔
7۔ مسئلہ ختم نبوت کی وجہ سے اللّٰلہ تبارک وتعالیٰ نے امت کواجماع کی نعمت سے نوازا۔
8۔ ختم نبوت کے منکریعنی جھوٹے مدعی نبوت سے اس کے دعویٰ نبوت کی دلیل طلب کرنے والا بھی کافرہے۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔