صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 24 اکتوبر 2025 

چوبیس

عادل رشید | جمعہ اگست 2020 

زندگی سے بھرپور فائدہ اٹھانا لطف اندوز ہونا اور کامیاب زندگی گزارنا دنیا کے ہر انسان کا یکساں حق ہے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم زندگی گزارنے کے سلیقے اصول اور آداب سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ عملا''ان اصول و آداب سے اپنی زندگی کو آراستہ و شائستہ بنانے کی کوشش میں پیہم سرگرم بھی ہوں ۔دنیا میں بسنے والا ہر انسان چاہتا ہے کہ اسکی دنیا جنت بن جائے اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنا چاہتا ہے آنکھیں جو تصور دیکھتی ہیں ان کو حقیقت کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے ۔جو خیالات جنم لیتے ہیں ان کو عملی شکل دینے کے لیئے دنیا کے تمام انسانوں کو امریکن ہوں یا انگلش یوروپین ہوں یا ایشین امیر ہو یا غریب مرد ہو یا عورت بوڑھا ہو یا جوان کارخانہ دار ہو یا کسان ہر ایک کو ایک دن میں چوبیس گھنٹے ملے ہیں دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں ایک دن چوبیس گھنٹے کا ہی ملے گا وقت کی اس یکساں تقسیم کے باوجود دنیا میں مختلف لوگ مختلف قسم کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کسی کی زندگی کامیاب ہے تو کسی کی ناکام۔ کوئی خوش و خرم ہے تو کوئی الجھنوں کا شکار۔ کہیں عیش و نشاط ہے تو کہیں تنگی۔ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اپنے حصے کے چوبیس گھنٹے کیسے گزارتے ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی انسان وقت کو ضائع کرکے کامیاب نہیں ہوا اور اسکا صحیح استعمال کرکے ناکام نہیں ہوا ۔
آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ مجھے فلاں کام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیلئے وقت نہیں ملا۔ اس خالی جگہ میں آپ کچھ بھی لکھ سکتے ہیں جیسے نماز۔ ورزش۔ کھانا پکانا۔ لکھنا لکھوانا وغیرہ،اور آپ نے ایسے لوگ بھی دیکھیں ہونگے جو باقائدگی سے نماز پڑھتے ہیں جم جاتے ہیں اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں ھمسایوں اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں ملک وملت کی طرف سے عائد ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس بھی ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہی ہوتے ہیں فرق صرف سوچ اور ترجیحات کا ہے دراصل ہم نے اپنے دفتری اوقات یعنی نو بجے سے شام پانچ بجے تک کو یہ سمجھ لیا ہے کہ دن بھر کا کام ہو گیا ان اوقات سے بیشتر جو نو گھنٹے گزر چکے ہیں اور انکے بعد جو سات گھنٹے باقی ہیں انکی ہماری نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی اس رویہ کی وجہ سے ان سولہ گھنٹوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا پاتے حالانکہ ان سولہ گھنٹوں میں ہم اپنی من مانی کرنے میں بالکل آزاد ہوتے ہیں ہم کسی کے ملازم نہیں کسی کو جوابدہ نہیں آٹھ گھنٹے نیند کے نکال کر بھی آٹھ گھنٹے بچ جاتے ہیں جن کو استعمال میں لاکر اپنی اقتصادیات کو سہارا دیا جا سکتا ہے مثلاً کوئی ہنر سیکھا جا سکتا ہے جیسے پینٹنگ فرسٹ ایڈ۔ کچن گارڈن۔ کیک بیکنگ۔ نٹنگ۔ پڑھنا لکھنا وغیرہ لیکن بسا اوقات انسان بڑے بڑے اچھے اور مفید کام کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور اسمیں اسکے کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے مگر دوسرے غیر اہم مشاغل کی کثرت (ٹی وی۔ فیس بک) اسے اتنا وقت نہیں دیتی کہ انہیں سر انجام دیا جا سکے بعض لوگوں کے پاس اتنا زیادہ وقت ہوتا ہے کہ وقت گزاری کے لیئے فضول گپیں ہانکنے اور بے ہودہ ٹھٹھا مذاق کرنے میں گھنٹوں کے گھنٹے ضائع کرکے کام کرنے والے کامیاب لوگوں کی کامیابوں اور اپنی ناکامی پر روتے ہیں انکا بہت سا وقت عزت و نفس کا بہانہ بنا کر وہمی اور خیالی ذیادتیوں کا بدلہ لینے کا پروگرام وضع کرنے میں گزر جاتا ہے اور انتقام سے پیدا ہونیوالی بیشمار اذیتوں سے گزر کر اپنا قیمتی وقت لا یعنی تو تو میں میں میں ضائع ہو جاتا ہے ہر کام کو کل پر ٹال دیتے ہیں کل اور کام جمع ہونے کی وجہ سے کوئی کام بھی وقت پر نہیں ہو سکتا۔ اکثر اوقات بجلی گیس اور فون کے بل وقت پر ادا نہیں ہو پاتے اور کئی بار گاڑی یا بائیک میں پٹرول ختم ہو جاتا ہیپس انسان اگر کچھ بننا چاہتا ہے اور زندگی کو بہ آرام بسر کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو آرام طلبی نزاکت پسندی کاہلی اور پست ہمتی کو چھوڑ کر اپنے وقت پر نگران رہے ایک لمحہ بھی فضول کھوئے بغیر ہر کام کے لیئے ایک وقت اور ہر وقت کے لیئے ایک کام مقرر کرے ورنہ جو شخص وقت کو برباد کریگا وقت اسے برباد کردے گا ۔
نظام کائنات بھی نظام الاوقات کا درس دے رہا ہے ہر موسم اپنے وقت پر آرہا ہے دن رات وقت کے پابند ہیں چاند سورج ایک مقررہ نظام کے تحت گردش کر رہے ہیں انسان جو اشرفالمخلوقات ہے وقت کی قدر نہیں کریگا تو ناکام زندگی گزارے گا کسان وقت پر بیج نہ بوئے وقت پر پانی نہ دے وقت پر فصل نہ کاٹے بھوک کا شکار ہوگا کارخانہ دار وقت پر کام نہ کروائے مزدور وقت پر نہ آئے تو جلد بند ہو جائیگا ۔داناؤں کے رجسٹر میں کل کا لفظ نہیں ملتا عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی معاشرہ اسے منظور کرتا ہے یہ ایسے لوگوں کے استعمال کی چیز ہے جو صبح سے شام تک خیالی پلاؤ پکاتے ہیں اور شام سے صبح تک خواب دیکھتے ہیں اس لئے جو کام یا پروجیکٹ درپیش ہے ابھی سے اس پر کام شروع کریں کل تک کافی کام نبٹ جائے گا ورنہ ہفتوں مہینوں تک پڑا رہنے کے باعث وبال جان معلوم ہونے لگے گا اسکا وزن ہر روز بڑھتا جائے گا اور اتنے کام اکٹھے ہو جائیں گے کہ ہمیشہ مصروف رہنے کے باوجود سب کام کبھی بھی سر انجام نہیں دیئے جا سکیں گے اس لیئے کام ٹالنے اور ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کی عادت کو تبدیل کر کے مثبت اور بہترین انداز سے امور کو نبٹا کر زندگی سے لطف اندوز ھوا جا سکتا ہے کامیاب زندگی گزارنے کیلئے آج ہی وقت کے متعلق اپنا احتساب کریں روز کے ملنے والے چوبیس گھنٹوں کو ضیاع سے بچانے کیلئے نظام الاوقات مقرر کر لینا نہایت ضروری ہے تاکہ ہر کام اپنی نوعیت اور کیفیت کے مطابق وقت پر ہوتا چلا جائے وقت کے صحیح استعمال سے دنیا کیساتھ ساتھ آخرت میں بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ایک تحقیق کے مطابق ہر انسان اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں پچیس سال نیند میں اڑھائی سال کھانے پینے اور ایک سال بیت الخلا میں گزارتا ہے تقریباً پونے چار سال نماز میں چار سال روزہ میں ایک سال تلاوت اور ایک سال دوسری عبادات میں صرف کرتا ہے ٥١سال نابالغی اور بقیہ عمر ملازمت میں گزارتا ہے عمر بھر انسان کے صرف دس سال عبادت میں گزرتے ہیں باقی عمر بظاہر نیکی سے خالی گزرتے ہیں لیکن اگر کھانے پینے سونے اور بیت الخلاجانے اور جائز ملازمت کو سنت کے مطابق کر لیا جائے تو چوبیس گھنٹے نیکی میں شمار ہو سکتے ہیں صرف وقت کے ضیاع سے بچنے آج کا کام آج کرنے اور جو کررہے ہیں اسے سنت کے مطابق ڈھالنے سے بفضلہ تعالی دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔