صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
ہفتہ 25 اکتوبر 2025 

نیاسیاسی نقشہ،خاموش احتجاج

مرادعلی شاہد دوحہ قطر | جمعہ اگست 2020 

گذشتہ سال انڈین پارلیمنٹ نے آرٹیکل370 کے خاتمہ کے بعد یہ سوچنا اور سمجھنا شروع کر دیا تھاکہ اب کشمیر کی آئینی اورجغرافیائی حیثیت وہ نہیں رہی جو اس سے قبل تھی۔370 آرٹیکل کے خاتمہ کے بعد چین،امریکہ،او آئی سی ،ترکی،ملائشیا ،سعودیہ اور اندرون بھارت حزب مخالف کے رد عمل نے یہ واضح کر دیا تھا کہ یہی آرٹیکل بھارت کیلئے گلے کی ہڈی بن جائے گا کہ جسے نگلنا اوراگلنا دونوں صورتوں میں نقصان نام نہاد سیکولر ہندوستان کا ہی ہوگا۔کم و بیش تیس ہزار مزید بھارتی فوج کی تعیناتی اس بات کا ثبوت تھا کہ ہندو بنیا اب کشمیریوں کے عزائم سے خوف زدہ ہو چکا ہے۔ان کا خیال ابھی تک یہ ہے کہ سلگتے چناروں کو ہم نے جلا دیا ہے،کوہساروں کو سرکا دیا ہے،ندی نالوں اور آبشاروں کو کشمیریوں کے خون سے لہو رنگ کر دیا ہے،مگر یہ سب ان کی خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی طرف سے مزید فوجی کمک نے کشمیر میں سلگتے چناروں کوبہاراور نیا جذبہ حریت عطا کر دیاہے ،پہاڑوں سے اٹھنے والے شعلے فلک بوس ہوتے جا رہے ہیں۔گویا جتنا اس مسئلہ کو دبانے کی کوشش کی جائے گی اتنا ہی یہ ابھر کر دنیا کے سامنے آئے گا۔
گذشتہ روز چین،انڈیا اور نیپال کے بعد پاکستان نے بھی اپنا نیا سیاسی نقشہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے جس میں نئی بات یہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف کشمیر بلکہ جونا گڑھ،مناور اور سرکریک سرحدی علاقہ کا بھی تعین پیش کردیا ہے کہ کون سے علاقے پاکستان کا حصہ کہلائیں گے۔پاکستان کاسیاسی نقشہ کو جاری کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ انڈیا نے اپنے نئے سیاسی نقشہ میں نہ صرف جموں وکشمیر بلکہ گلگت بلتستان کو بھی اپنی سرحدی حدود میں شامل کررکھا تھا۔انہیں دنوں میں جب نیپال اور چین کے تعلقات میں نیا دور کا آغاز ہوا یعنی چین نے نیپال میں انڈیا کا سیاسی ومعاشی اثرو رسوخ کم کرنے کیلئے نیپال میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا تو انہوں نے بھی اپنا نیا سیاسی نقشہ دنیا کے سامنے رکھ دیا۔نیپال نے نہ صرف مقبوضہ حصوں کی نشاندہی کی بلکہ اقوام متحدہ۔اپنی درسی کتب،گوگل میں بھی اپلوڈ کروا دیا کہ ہمیں ہمارا حصہ جس پہ انڈیا زبردستی قابض ہے واپس دلایا جائے۔ادھر چین نے اپنے نقشہ میں اکسائی چن اور تبت کے علاقوں کا سرحدی ایریا واضح کردیا۔ساتھ ہی انڈیا کو یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر اکسائی چن میں کوئی عسکری مداخلت کی تو پھر اروناچل پردیش کا علاقہ بھی محفوظ خیال نہ کیا جائے۔اسی لئے چین نے کمال سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھوٹان کو بھی اپنے ساتھ سرمایہ کاری کے ذریعے ملا لیا تاکہ بھارت کی چین کیساتھ تمام سرحدی ممالک چین کا ساتھ دیں۔اس سارے عمل کو ابھی انڈیا برداشت نہیں کرپایا تھا کہ پاکستان نے یوم استحصال کشمیر کے موقع پر اپنا نیا سیاسی نقشہ بھی جاری کردیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ہر شخص کو آادی حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرے جیسے کہ ابھی بھی بہت سے سیاسی مخالفین اور مفاد پرست اپنے طور پر مخالفانہ کردار ادا کرنے سے ذرہ بھر بھی شرم محسوس نہیں کر رہے۔آتاہوں اپنے سوال کی طرف کہ کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔تو اگر آپ میپ ریڈنگ کو سمجھتے ہیں تو آپ نے نقشہ میں دیکھا ہوگا کہ پاکستان کا گلگت بلتستان کا علاقہ پڑوسی ملک افغانستان کیساتھ ملتا ہے۔انڈیا نے چونکہ افغانستان اورایران میں سرمایہ کری کر رکھی تھی جو اس کے گلے کی اب ہڈی بن چکی ہے،لہذا بھارت کا خیال تھا کہ وہ گلگت اور بلتستان کیساتھ ساتھ جموں وکشمیر کو اپنا حصہ ظاہر کر کے افغانستان میں اپنی معاشی و سیاسی حیثیت کو مضبوط کرے گا۔لہذا پاکستان نے اس بات کا منہ توڑ جواب دیا ہے کہ ایسا تم نے سوچا بھی تو اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا۔دوسری وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ پاکستان نے اس نقشہ کا اجراکر کے اس بات کا عملی ثبوت فراہم کردیا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔
ایک اور بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت چین کا پاکستان کو مکمل اعتماد اور ساتھ حاصل ہے وگرنہ ایسے موقع پر کبھی پاکستان اپنا نیا سیاسی نقشہ پیش نہ کرتا۔لہذا پاکستان نے ایسا کرنے سے چند روز قبل ہی چین کو اعتماد میں لے کر یہ قدم اٹھا لیا۔ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ گلگت بلتستان کی سرحد چین کیساتھ منسلک ہے تو چین اور پاکستان بھی مسئلہ کشمیر کے بعد اس کو حتمی صورت دے دیں گے۔لیکن موجودہ تعلقات کی نوعیت ظاہر کرتی ہے کہ وہ گھر کا ہی معاملہ ہے۔چین اور پاکستان کے اعتماد کو انڈین سابق آرمی آفیسر اور موجودہ دفاعی تجزیہ کار پروین ثاہنی نے اپنے ایک ٹوئٹر میں اس بات کی طرف اشارہ بھی دیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ چین اس صورت حال میں مکمل پاکستان کے پیچھے کھڑا ہے۔خیر اس میں کوئی مذائقہ بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ دوست وہی ہوتا ہے جو اچھے اور برے لمحات میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو۔اور اس وقت چین اور پاکستان اچھے دوست اور ہمسائے ہیں۔اور چین نے تو پاکستان میں سرمایہ کاری اور سی پیک سے یہ ثابت بھی کردیا ہے کہ چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے اونچی اور بحیرہ ہند سے بھی گہری ہے۔
اب نقشہ تو جاری کردیا ہے ،لیکن اس کے بعد کیا صورت حال پیدا ہوتی ہے اصل مسئلہ اور عزم وہی ہے۔یعنی ابھی اس نقشہ کو ٹیکسٹ بک،سرکاری دفاتر،سرکاری خط وکتابت،گوگل اور سب سے بڑھ کر اسے اقوام متحدہ میں بھی پیش کرنا ہے۔کیونکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق جو علاقہ پاکستان نے open ended چھوڑا ہوا ہے اور اس میں وضاحت بھی کی گئی ہے کہ یہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے اور انڈیا قابض ہے اور اس کا فیصلہ اقوام متحدہ میں فائنل ہونے والی حیثیت کے بعد سرحدی لائن سے کیا جائے گا۔اسی لئے نقشہ کا ایک حصہ کھلا چھوڑا گیا ہے۔وہ علاوہ چونکہ دوست ملک چین سے متصل ہے اس لئے اقوام متحدہ میں فائنل ہانے کے بعد اسے چین اور پاکستان ہی سرحدی حدود میں متعین کریں گے۔دوسرا جو سب سے اہم پہلو ہے وہ ہے کہ کشمیریوں کو بھی اس سلسلہ میں اعتماد میں لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔یقینا ان کا خیال اور پاکستان کا بھی خیال ہے کہ کشمیر میں ریفرنڈم کروا لیا جائے۔اگرچہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن کشمیری قیادت اور پاکستانی قیادت کو اس پہلو پر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ انڈیا ہندووں کی آبادکاری جس تیزی سے کروا رہا ہے اس کا نقصان آئندہ دنوں میں ہمیں کیا اور کتنا ہو سکتا ہے۔اس لئے پاکستان کو اس نقشہ کو اقوام متحدہ میں پیش کرنے کیساتھ ساتھ کشمیری قیادت سے مل کر ہندووں کی آبادکاری کے عمل کو بھی رکوانا ہے۔وگرنہ سیاسی ہوا بدلتے ہوئے کچھ دیر نہیں لگتی۔دنیا اسے ایک نقشہ ہی نہ سمجھے بلکہ یہ ایک خاموش احتجاج ہے جسے پاکستان اقوام متحدہ میں لے جا کر صدائے کشمیر بنائے گا۔جہاں تک پاکستانی عوام کی بات ہے تو میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ چاہتا ہے کہ ۔۔۔۔کشمیر بنے گا پاکستان۔ 

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔