چشم فلک بھی محبت و عقیدت سے اس قدسی قافلے کو تک رہی ہے۔جو حج کی سعادت اداکرنے کے بعد مدینہ کو لوٹ رہا ہے۔سورج کی چمکتی تیز شعائیں ان حاجیوں کے قدموں کو بوسہ دے رہی ہیں۔جو سارے زمانوں میں سب سے بہترین زمانے کے لوگ ہیں۔یہ قدسی روحیں جو قیامت تک کیلئے مقدس اور منور ہیں۔قافلہ کی صورت نورانی ساعتوں اور نورانی چہروں کے اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ایک آواز سنتی ہیں ۔یہ کون سی جگہ ہے۔سالار قافلہ کی آواز کے جواب میں جواب آتا ہے۔یہ غدیر خم ہے آقا۔سالار قافلہ گروہ انبیا کے سردار نبیوں کے اولین اور آخرین پیشوا پڑاو کاحکم فرماتے ہیں ۔ منبر رکھنے کا حکم جاری ہوتا ہے۔ لاکھوں دل سینے میں دھڑک رہے ہیں کہ ہمارے پیارے آقا ۖ کیا حکم فرماتے ہیں۔ان کے جسم ناخن سیسر تک کان بن جاتے ہیں۔ وہ جان افزا حسیں آواز ملائم تکلم دل میں اترتا انداز خطابت سب اپنی سانس دھیمی کر لیتے ہیں کہ سننے میں کوئی شور مانع نہ ہو۔منبر رکھا جاتا ہے۔ منبر پر کپڑا ڈالا جاتا ہے۔ محمد مصطفیۖ قدم رنجا فرماتے ہیں۔ غلاموں کی نگائیں چہرہ مصطفی ۖ کی جانب اٹھتی ہیں ۔ اور با ادب جھک جاتی ہیں ۔سراپا ادب اصحابہ کرام کی سماعتوں سے ندائے مصطفی ۖ ٹکراتی ہے۔ کیا میں تمھاری جانوں سے قریب تر نہیں ۔پہلو میں دل تڑپ اٹھتے ہیں۔ بلی یا رسول اللّٰلہ ۖ کی گونج سے غدیر کا میدان جھوم اٹھتا ہے۔ آپۖ فرماتے ہیں گویا کہ میں بلایا گیا ہوں ۔ یعنی میں اللّٰلہ تعالی کے حضور جانے والا ہوں۔ اور میں نے اس کے بلانے کو قبول کر لیا ہے۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی جا رہیں تھیں۔ جان کائنات فرما رہے تھے ۔لوگو میں تم میں دو وزنی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایک دوسرے سے بڑی۔ اللّٰلہ کی کتاب اور میری عترت(یعنی) میرے اھلبیت ۔سو فکر کرو کہ تم میرے بعد ان دونوں سے کیا معاملہ کروگے۔پس یقینا یہ دونوں آپس میں ہر گز جدا نہیں ہونگے۔یہاں تک کہ حوض کوثر پر پہنچیں گے۔ رسول اللّٰلہ ۖ کی صدائے حق غدیر خم کے میدان میں سماعتوں کے ذریعے ذہنوں میں محفوظ ہو رہی تھی۔وہ دھن جو اپنی ہوائے نفس سے نہیں بولتا،
بلکہ اللّٰلہ ان لبوں کے ذریعے کلام فرماتا ہے۔لاکھوں پاک نفوس ایک ایک لفظ اپنے دلوں کی لوح پر محفوظ کرتے جا رہے تھے۔وہ الفاظ فضا میں بلند ہوئے جو حق کی پہچان بن گئے۔جو مومن اور منافق کے درمیان کسوٹی بن گئے۔جو مدینہ العلم تک رسائی کا باعث بن گئے۔آپۖ فرما رہے تھے بے شک اللّٰلہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا ولی ہوں پھر حضرت علی کرم اللّٰلہ وجہہ الکریم کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ۔جس کا میں ولی اس کا یہ بھی ولی۔ اے میرے اللّٰلہ جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس کو دشمن رکھے تو بھی اس کو دشمن رکھ۔ حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں میرے اور منبر کے درمیان کوئی ایک شخص بھی نہیں تھا مگر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان کانوں سے سنا۔غدیر خم کا میدان اور منبر رسول ۖ اور اعلان ولایت علی کرم اللّٰلہ وجہہ الکریم اور اس اعلان کو سننے والے لاکھوں صحابہ جو وہیں کھڑے کھڑے حضرت علی ابو تراب کی غلامی کو قبول کرنے والے بن گئے۔ دونوں شیخین حضرت عمر فاروق اور حضرت ابو بکر صدیق مبارک میں پہل کرنے والے بنے۔ بخ بخ ، مبارک ہو ، مبارک ہو اے علی آپ ہر مومن مرد اور مومن عورت کے مولا ہیں۔حضرت عمر فاروق حضرت علی کے سینہ مبارک پر ہاتھ مار کر مبارک باد دے رہے تھے ۔ غدیر خم کا اعلان من کنت مولا فھذا علی مولا صحہ ستہ کی ہر ہر کتاب مقدس کر ورق کی شان بن کر جگمگا رہا ہے۔ نسائی شریف،سنن ابی داود، مسند احمد حنبل،مشکو شریف،اما م عساکر ،طبرانی،امام ابن کثیر ،امام عسقلانی۔امام خطیب بغدادی،امام بخاری کے دادا استاد،امام عبدالرزاق اور بے شمار ائمہ حدیث نے اسے رقم کیا ہے۔ حدیث غدیر خم 51 مختلف اسناد یعنی راویوں سے مختلف طریق سے حدیث کی سینکڑوں کتابوں میں روایت کی گئی ۔اہل سنت کے 150 ائمہ حدیث سے اسے رقم کیا گیا ۔146 صحابہ کرام اور تابعین نے اسے روایت کیا۔حضرت ایوب انصاری ،حضرت انس،حضرت ہراہ بن عازب،سعد بن ابی وقاص ،عبداللّٰلہ ابن عباس،حضرت عمر فاروق،ابوبکر صدیق اور کثیر صحابہ نے اسیبیان فرمایا۔گویا حضرت علی ایمان کی جان ہوئے۔گویا حضرت علی مومن کی پہچان بنے۔آپ کی ولایت کا اقرار ایمان اور انکار منافقت ہے۔حضرت ابن عباس فرماتے ۔ہم منافق کی پہچان بغض علی سے کیا کرتے تھے۔حضورۖ کی دعا قیامت تک مومن اور منافق کے حق میں مقبول ہو گئی کہ نبی کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔آپۖ نے حضرت علی کی ولایت کے اعلان کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی۔اے اللّٰلہ جو میرے علی کو ولی مانے تو بھی اسکا ولی بن جو اس کا دشمن ہو تو بھی اس کا دشمن بن۔جو علی کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر ۔گویا حضور ۖ سے حوض کوثر پر ملاقات کی شرط اہل بیت اطہار کی محبت اور ادب ہے۔آپۖ کا فرمان ذیشان ہے کہ قرآن اور اہل بیت کبھی جدا نہیں ہوں گے۔دونوں حوض کوثر پر اکھٹے آئیں گے۔آپۖ نے حکم دیا غدیر خم میں کہ اللّٰلہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو، دوسری میری اہل بیت ہیں۔میں اپنی اہل بیت کے بارے تمھیں اللّٰلہ یاد دلاتا ہوں۔اہل سنت ہونے کیلئے شرط غلامی رسولۖکیساتھ حضرت علی کو اپنا ولی اور مولا ماننا ہے۔ یہ ہی ایمان کا تقاضہ حکم الہی اور چاہت رسولۖ ہے۔ اے رب کریم ہمیں دونوں جہانوں مین پنجتن پاک کے غلاموں میں شمار کر۔ کہ یہ ہی راہ نجات اور خاتمہ با الخیر کی سند ہے۔ حضرت علی کسی ایک فرقہ، مسلک کے نہیں ۔ وہ تو مومن اور منافق کے درمیان حد فاصل ہیں۔ ایمان کی مضبوطی اور عشق رسولۖ اور حب علی کیلئے امام نسائی الحافظ الحجتہ ابی عبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی صاحب السنن کبری احد الصحاح السنتہ کی تالیف خصائص الامام امیر المومنین علی کرم اللّٰلہ وجہہ الکریم بن ابی طالب کا ترجمہ انوار علی کا ضرور مطالعہ کیجیے جس کے مترجم اور شارع(فقیر) محمد امیر شاہ قادری گیلانی رحمتہ اللّٰلہ علیہ ہیں۔ اس کتاب کو بیان کرنے پر امام نسائی نے شامیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا۔ اور جنت کے باغات کے مکیں بنے ۔۔۔ لاکھوں کروڑوں رحمتیں اھل العبا پر جن کی محبت حضرت محمد مصطفی ۖ کی محبت بن گئی ۔۔۔جو نمازوں میں بصورت درود شامل ھیں ۔ رب کریم سے دعا ھے کہ ان سے ملاقات کا شرف حوض کوثر پر ھو ۔ اور ان کے ہاتھوں سے جام کوثر نصیب ھو ۔آمین