ماہرین کے مطابق سمندروں کے کنارے رہنے والے افراد پُر ہجوم اور عمارتوں میں بسنے والے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ پُر کون اور ڈپریشن سے دورہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ سمندر پر کچھ وقت گزارنے اورکچھ دیر یہاں پر رہنے ۔بلکہ اسے دیکھنے سے بھی ذہنی سکون ملتا ہے۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں ہیلتھ جیو گرافی کے ماہرین کے مطالعے میں سرسیز مقامات کو بھی شامل کیاگیا ہے لیکن اس کے ذہنی صحت پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں ۔ اس کیلئے ماہرین نے نیوزی لینڈ کے علاقہ ویلنگٹن میںرہنے والے مختلف افراد کا جائزہ لیا اور ان سے ذہنی تنائو کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان میں سے جو لوگ قریب سے سمندر کو دیکھتے ہیں ۔ان میں بقیہ کے مقابلے میں کم ڈپریشن نوٹ کیاگیا تاہم انکا کہنا ہے کہ ان میں عمر، معاشی حیثیت اور جنس جیسے اہم عوامل کو بھی سامل کرنا ہوگا ۔ ماہرین کے مطابق وجہ یہ ہے کہ نیلی جگہیں قدرے فطری ہوتی ہیں۔ یعنی سمندر جب کہ سبز علاقے خود انسانوں کے بائے ہوئے بھی ہوسکتے ہیں ۔ قدرت نے ان جگہوں کوبہت ہی پُر کشش اور سکون والی جگہ بنا رکھا ہے ۔ ملک پاکستان میں اللّٰلہ پاک نے ان جیسا بے شمار اپنا حسن بکھیرا ہوا ہے ۔بس ہم لوگ ان جگہوں کو متاشی کچھ کم سے ہیں ۔ ہم لوگوں کوبس ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے کیلئے ملتا رہنا چاہیے ۔ میں ایک اخباری رپورٹ پڑ ھ رہا تھا کہ برطانوی ایک نوجوان ہفتے میں 150سے زائد کیلے کھا کر اپنی اسی فیصد غذائی ضروریات پوری کررہا ہے ۔ ڈین نامی شخص کا چہرہ دانوں (ایکنی)سے بھرا ہوا تھا۔ جس کے باعث دو سال قبل اس نے سبزی خوربننے کا فیصلہ کیا تھا ۔ لیکن بعد میں گزشتہ 6ماہ سے کچھ خوراک کھا رہا ہے جوکہ80فیصد کیلوں پر مشتمل ہے اور اس طرح وہ ہفتہ میں150کیلے کھاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار چاورل بھی کھا لیتا ہے اسکے علا وہ کبھی کبھی وہ پالک کی بڑی مقدار میں سبزپتوں والی سبزیاں شامل کر کے بھی کھاتا ہے ۔ ناشتہ میں ڈین8سے 12عدد کیلوں میں نصف ، پونڈ پالک ملا کر اسکا جوس بناکر پیتا ہے ۔ جبکہ دوپہر میں بیریاں ،ناشپاتی اور دیگر پھلوں میں8سے 12عدد کیلے ملا تا ہے اور اس کا جوس پیتا ہے اور اسکی صحت ہشاش بشاش اور فٹ ہے اور اس کو کسی قسم کی کوئی بیماری بھی نہیں اور وہ اپنی زندگی میں خوش ہے جبکہ ملک پاکستان میں ہر قسم کاکھانا کھنے کے بعد بھی ہم لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں جسکا ذکر شعبہ صحت میں سہولتوں کی کمی کا اعتراف توخود سابقہ وفاقی وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ بھی کرتی ہیں جب وہ یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں صحت کی سہولتوں کی شرح شرمناک کی حد تک گرائوٹ کا شکار ہے تو پھر ان کایہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس پر توجہ فرمائیں ان کاکام محض کوتاہیوں کی نشاندہی نہیں کرنا ۔ ان کا درست علاج بھی ہے اور ان سے یہی اُمید کی جاتی ہے کہ وہ شعبہ صحت کی حالت بہتر بنائیں گی ۔پاکستان میں حکمرانی کرنے والوں نے کبھی بھی صحت کے شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی جو عالمی سطح پر اسے حاصل ہے ایک صحت مند اورطاقت ورقوم ہی تر قی و خوش حای کا سفر طے کر سکتی ہے ۔
روتھ فائو 10اگست 2017کو تقریباً 6بجے کے قریب کراچی میں انتقال کر گئیں ۔ ڈاکٹر روتھ فائو اور عبدالستار ایدھی صاحب پاکستان کی دو ایسی شخصیات ہیں جو پاکستان ہی میں نہیں ساری دنیا میں اپنی بے لوث اور عوامی خدمات کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں اور قابل احترام بھی ہیں عبد الستار ایدھی کی خدمات وارث اور لاوارث لاشیں اُٹھانا ، انہیں نہلانے دھلانے ، انہیں کفن پہنانے اور انکی تدفین کے علا وہ لاوارث بچوں ، بوڑھوں کی رہائش ، انکی تعلیم اور خوراک کے علاوہ انہیں ضروریات زندگی کی فراہم کرنے تک وسیع انتظام کر رکھا تھا اور ہے ۔ لیکن ڈاکٹر روتھ فائو نے اپنی خدمات ایسے لوگوں کیلئے وقف کر دیں جن سے عوام کو گھن آتی ہے جذام ایک ایسا مرض ہے جس میں انسان کے اعضاء گل سڑ کر جسم سے الگ ہونے لگ جاتے ہ یں اور مریض کا جسم خوفناک حد تک بد صورت اور ڈرئونا ہوجاتا ہے اور ایسے مریض اپنے گھر میں بھی تنہا اور نفرت کا شکا ر ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ ایسے خوفزدہ کرنے والے مریضوں کی دیکھ بال ، انکا علاج ان کیساتھ 24گھنٹے گزارنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس کے لیے بڑے دل گردے ، حوصلے اوربرداشت کی ضرورت ہوتی ہے جذام ایک ایسی بیماری کے مریض کا جسم اس قدر ہیبت ناک اور ڈرائونا ہوجاتا ہے کہ لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیںان کے گلے سڑے جسم سے اتنی شدید بُو آتی ہے کہ کوئی شخص ایسے مریضوں کیساتھ چند منٹ گذارنا پسند نہیں کرتا ۔ ڈاکٹر روتھ فائو کی انہیں نا قابل یقین لیکن فخریہ خدمات کے صلے میں انہیں بے شمار اعزازات سے نواز اگیا ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق 1968ء میں انہیں جرمنی میں ''آرڈر آف دی کراس ''سے نوازا گیا1969ء میں انہیں ''ستارہ قائد اعظم '' دیا گیا ۔ 1979ء میں انہیں ''ہلال امتیاز'' دیا گیا ۔ 1985ء میں جرمنی میں انہیں '' دی کمانڈر کراس آف دی آرڈر آف میرٹ ''سے بھی نوازا گیا ۔ 1989ء میں انہیں ''ہلال پاکستان '' دیا گیا ۔ 1991ء میں امریکا نے انہیں '' ڈیمن ڈیوٹن'' ایوار دیا۔ 1991ء میں انہیں آسٹریا نے ایک بہت بڑے اعزازسے نوازا 2002ء میں فلپائن نے انہیں '' رامن میگ سیسے ایوارڈ'' سے نوازا ۔2003ء میں جناح سوسائٹی نے انہیں جناح ایوارڈ دیا۔ 2004میں آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دوسرے لوگوں کو زندگی کی بہاریں دیتی ہوئی ڈاکٹر روتھ فائو 2017ء کو مالک حقیقی سے جا ملیں ۔
ڈاکٹر روتھ فائو کی کمی سر زمین پاکستان پر ہمیشہ رہے گی ۔ لیکن اس کیساتھ ساتھ روتھ فائو کا مشن بھی جاری و ساری رہے گا ۔ ڈاکٹر روتھ فائو اگر پاکستان میں یہ مشن جزام سے چھٹکارہ پانے شروع نہ کرتیں تو شائد پاکستان میں اس بیماری کو پکڑنا نہ صرف مشکل ہوتا بلکہ ناممکن بھی ہوتا کیونکہ ملک پاکستان میں بہت بڑے بڑے مگر مچھ موجود ہیں جو قانون کی آنکھوں میں دھول جونک کر چوری بھی کرتے ہیں اور قرضہ بھی لے کر مُکر جاتے ہیں ۔ یہاں غریب لوگ بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں بھوک کے مارے یہ لوگ کسی محفل ، شادی کے پر وگراموں میں بچے کچے کھانے کھا کر خوش ہوجاتے ہیں اور کبھی تو کوئی روٹی کسی امیر آدمی کے ہاتھوں سے چھین کر بھاگ جاتے ہیں اور دور بیٹھ کر کھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے اندر کی آگ کو بجا رہے ہوتے ہیں اور امیر لوگ ان کو چور چور کہہ رہے ہوتے ہیں اٹلی کی اعلیٰ عدالت نے خوراک کی چوری کے ایک مقدمہ میں تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مدعا علیہ نے ضرورت کے تحت خوراک اٹھائی ۔اس لیے یہ جرم کے زمرے میں نہیں آتا ۔ عدالت نے فیصلہ صادر کیا کہ بھوک سے بچنے کیلئے خوراک چوری کرنا جرم نہیں ہے ججوں نے رومن اوستریا کوف کیخلاف چوری کا مقدمہ خارج کر دیا جس نے ایک سپر مارکیٹ سے 4یورو مالیت کا پیزا اور جوس چوری کیے تھے ۔ اوستریا کوف یو کرین سے تعلق رکھنے والا بے گھر ہے عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ملزم نے خوراک اس لیے اٹھائی تھی کہ اسے فوری اور لازمی طور پر غذائیت کی ضرورت تھی اس لیے یہ کوئی جرم نہیں تھا ۔ عدالت نے مزید لکھا کہ کم مقدار میں اہم غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے لے لینا جرم کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اٹلی کے اخباروں نے عدالتی فیصلے پر خاصے تبصرے کیے ہیں ۔ اطالوی اخبار لاستا مپ نے لکھا کہ فیصلے سے ہمیں یاد دہانی ہوتی ہے کہ کسی مہذب ملک کے بد ترین شہری کو بھی بھوکا نہیں ہونا چاہیے ۔ روزنامہ اٹالیا گلوبل نے لکھا کہ یہ تاریخی فیصلہ درست اور موزوں ہے اور یہ انسانیت کے اصولوں سے نکلا ہے ۔ جو صدیو سے مغربی دنیا کی رہنمائی کررہا ہے پاکستان کی نہیں ۔ پاکستان میں صرف اور صرف جو لوگ غریب ہیں وہ ہمارے پیارے ملک کے حکمران ہیں جو پاکستان معدنی و سائل ، خزانے تک کھا گئے لیکن ابھی تک اُنکی بھوک ختم نہیں ہوئی ۔بیرون ملک سے قرضہ بے انتہا لے کر بھی کھا گئے لیکن انکی بھوک ابھی تک ختم نہیں ہوئی ۔اب صرف اپنی شناخت مٹانے کیلئے صرف ایک کام باقی رہ گیا ہے وہ یہ کہ اپنی شکل ہی بدل لیں جیسا کہ حال ہی میں چین میں ایک دلچسپ کیس سامنے آیا ۔ وسطی چین کے شہر و دیان کی رہائشی ایک عورت نے مختلف بینکو سے قرض حاصل کیا۔ قرض کی رقم کی مجموعی مالیت37لاکھ امریکی ڈالر کی مساوی تھی پاکستانی روپوں میں یہ رقم تقریباً چار کروڑ بنتی ہے ۔ مذکورہ عورت جب وقت مقررہ پر قرض کی اقساط اداکرنے میں ناکام رہی تو آخری چارہ کار کے طور پر قرض خواہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔ عدالتی سمن کی تعمیل میں مقروض عورت کے پیش نہ ہونے پر جج نے اسکی گرفتاری کے احکامات جاری کر دئیے ۔ پولیس اہلکار دئیے گئے پتے پر پہنچے اور دروازہ کھولا گیا تھا ۔ اس کے جواب میں ایک جوان عورت نمودار ہوئی ۔وہ عورت پولیس کے پاس تصویر سے بالکل مختلف تھی ۔ تصویر میں ایک بڑھیا کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا ۔ جب کہ اُنکے سامنے موجود چہرے سے تقریبا30سال سے زائد کی نہیں لگ رہی تھیں ۔پولیس نے اُس سے بوڑھی عورت کے بارے میں دریافت کیاتو اُس نے جواب دیا کہ وہاں اُس کے علا وہ کوئی اور نہیں رہتا ۔ پولیس اہلکاروں کی جرح جاری تھی کہ اُن کیساتھ آئے ہوئے بینک افسران میں سے ایک کو محسوس ہوا کہ آواز تو اُسی عورت کی ہے ۔جو قرض کیلئے بینک کے چکر لگا رہی تھی ۔ بینک کے ملازم نے اس بات کااظہار پولیس آفیسر سے کیا ۔ پول؛یس آفسر نے غور کیا۔ تو اُسے بھی جوان عورت کی آواز کسی بڑھیا کی آواز جیسی معلوم ہوئی ۔ اُس نے یہ بات عورت سے کہی تو وہ گھبرا گئی اُسکی گھبراہٹ سے پولیس سمجھ گئی کہ معاملہ مشکوک ہے ۔ چنانچہ انہوں نے سختی سے باز پرس کی اور بعد ازاں عورت کو تھانے لے آئے ۔ یہاں تفتیش کے نتیجے میں اُس عورت نے اقرار کیا کہ بینکوں کی مقروض وہی ہے اور اس نے قرض کی ادائیگی سے بچنے کیلئے پلاسٹک سرجری کے ذریعے چہرہ تبدیل کر وا لیا ۔ اور مزے کیبات یہ ہے کہ وہ عورت اس مکان میں مقیم نہیں تھی ۔بلکہ مختلف شہروں میں مختصر عرصے کیلئے قیام کرتی تھی ۔ بد قسمتی سے وہ اسی روز اپنے گھر میںکسی کام سے پہنچی تھی کہ دھرلی گئی ۔ ان دنوں وہ جوان بڑھیا پولیس کی تحویل میں ہے ۔ اور اس کیخلاف قرض کی عدم ادائیگی پر مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے اب ہمارے حکمرانوں کے پاس بھی اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ وہ بھی چہرے ہی بدل لیں کیونکہ اُن پر ایک نہیں کئی مقدمات ہیں وہ بھی تبوتوں کیساتھ ۔