صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
اتوار 26 اکتوبر 2025 

جہیز معاشرتی ناسور

رعنا اختر | منگل 28 جولائی 2020 

جہیز کینسر کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیل چکا ہے جس طرح کینسر کے مرض میں مبتلا شخص اپنے اعلاج کیلئے اپنا سب کچھ دا پہ لگا دیتا ہے اسی طرح جہیز کے ساز و سامان کو پورا کرنے کیلئے ایک باپ اپنی جائیداد کا بہت سا حصہ بیچ دیتا ہے ۔
امیر طبقے کیلئے اس کینسر جیسے مرض سے لڑنا بالکل آسان ہے لیکن ہمارا غریب طبقہ بیٹی کی پیدائش سے ہی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ بیٹی اک رحمت ہے اور اس رحمت کا دنیا میں آتے ہی ہمارے جیسے والدین کے کندھوں پہ بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔
بیٹی کی پیدائش کے پہلے دن سے لیکر اس کی شادی کے آخری دن تک باپ کے سر پہ جہیز ایک تلوار کی شکل اپنائیں لٹکتا رہتا ہے ۔ جسے پورا کرنا ایک عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہے ۔ لیکن ہم کریں تو کیا کریں بیٹیوں کو گھروں میں بیٹھا رکھیں ۔ 
 آج کے دور میں بیٹی کی شادی کرنا اتنا مشکل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے غریب گھرانوں کی لڑکیوں کے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے ۔ جہیز کا نہ ہونا بیٹی کے نصیبوں پہ تالا لگنے کے مترادف ہے اور یہ تالا ہمارا اپنے ہی ہاتھوں سے لگتا ہے ۔ جہیز کی وبا ہمارے معاشرے کو چاروں طرف سے گھیر چکی ہے ۔
پہلے پہل تو بیٹی کی شادی کے بعد اسے ضروریات زندگی کی چیزیں فراہم کر دی جاتی تھی جو کے چند چیزوں پہ مشتمل ہوتیں تھیں لیکن وہی چیزیں ایک لسٹ کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ جسے بیٹی کی شادی سے پہلے ہی لڑکے والوں کو دکھانا واجب ہو چکا ہے ۔
پہلے پہل لوگ عزت دار گھرانوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے ان کی سوچ اچھی اور با ادب لڑکی ڈھونڈنے تک محدود ہوتی تھی لیکن اب کے اس جدید دور میں لوگوں نے جہاں بزرگوں کی روایت کو پست پشت ڈال دیا ہے وہاں بہت سی ایسی روایات کو منظر عام پہ لے آئے جس کا ہمارے بزرگوں سے کیا ہمارے پورے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اب لڑکی اسی گھر سے لائی جاتی ہے جو اپنی بیٹی کو جہیز کیساتھ رخصت کرے ۔
لڑکے والے ایک باپ کے جگر کا ٹکڑا بھی لیتے ہے ساتھ میں باپ کے گھر کی چھت کو بھی لے اڑتے ہیں ۔ جو اس نے بیٹی کی جہیز کی وجہ سے گروی رکھوا دی ہوتی ہے ۔ پھر بھی چین نہیں پڑتا ایسے لوگوں کو ایسا باور کرواتے ہیں جیسے کے وہ بیٹی لیکر کوئی احسان کر رہے ہو لڑکی والوں پہ ۔
یہی وجہ ہے بیٹی والوں کے سر ہمیشہ کیلئے لڑکوں والوں کے سامنے جھک جاتے ہیں ۔ اگر باپ بیٹی کو جہیز میں کچھ نہ دے پائے تو سسرال والے اس لڑکی کا جینا محال کر دیتے ہیں ۔ بات بات پہ طعنوں کے نشتر چلائے جاتے ہیں صرف دنیاوی چیزوں کیلئے جس کا تصور اسلام میں دور دور تک نہیں ملتا ۔
اس ناسور نے لاکھوں بہوں بیٹیوں کے آنکھوں کے خواب چھین لیے ہیں جو انہوں نے اپنی شادی کیلئے دیکھے تھے ۔ ان کی آرزوں ،تمناوں کا گلہ گھونٹ دیا ہے انہیں نا امیدی ، مایوسی اور اندھیروں کی گہرائیوں میں جھونک دیا ہے جہاں ان کیلئے اجالے کا سفر نہ ممکن ہو گیا ہے ۔ یہ ایک رسم ہے جو بیٹی کے والدین کیلئے پھانسی کا پھندا بن چکی ہے ۔ کوئی ایسا فرشتہ صفت انسان نہیں ہے جو بیٹی کو دو جوڑوں میں قبول کر کے اپنے گھر کے جائے ۔ یہ رسمیں ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوطی سے قائم کر چکی ہے جنہیں اکھیڑنا ناممکن ہو چکا ہے ۔
جہیز کی رسم درحقیقت ہندوستانی معاشرے کی رسم ہے جو وہاں تِلک کے نام سے مقبول ہے جسے ہمارے معاشرے نے اپنا لیا ہے جس کی وجہ سے غریب گھرانوں کی لڑکیاں شادی سے محروم اپنے گھروں میں بیٹھی رہنے پہ مجبور ہیں ۔ جہیز ایک غیر فطری عمل ہے اور اسلام کے عین خلاف رسم ہے آج اس رسم نے جو صورتحال اختیار کر رکھی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔
حکومت کو چاہیے کے جیسے آدھی رات کے وقت شور وغل پہ پابندی عائد کی ہے ویسے ہی ایک قانون بنایا جائے جس سے جہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے اور جو شخص اس جرم کا ارتکاب کرے گا اسے جیل اور بھاری جرمانہ عائد کیے جائیں ۔ تاکہ کوئی بھی ایسا مطالبہ کرنے سے پہلے دس بار سوچیں ۔ 
اس لعنت کو معاشرے سے ختم کرنے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے اس کیلئے والدین کو بھی ایک عہد کرنا ہو گا نہ وہ جہیز لیں گے نہ وہ جہیز دیں گے اور لوگوں کو بھی بتایا جائے جہیز میں ضرورت اشیا کے علاہ فرمائشیں پوری کروانا ایک اخلاقی جرم ہے ۔
جہیز کا لین دین اسلام میں بھی جائز نہیں اس کی روک تھام کیلئے آج کے نوجوان اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ہمارے نوجوان اپنے دل سے جہیز کا لالچ نکال دے اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کرے ۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔