صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
منگل 28 اکتوبر 2025 

محمد صدیق خان کانجو''شہید''

اللّٰلہ ڈتہ انجم | پیر 27 جولائی 2020 


اے شامِ غم کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر بھی کر 
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا
کچھ ہستیاںاگر چہ اس جہان فانی سے جسمانی و مادی لحاظ سے اوجھل ہوجاتی ہیں لیکن ان کے کارہائے نمایاں اور ان کے افکار زندہ و تابندہ رہتے ہیں ۔ایسی ہی ایک سیاسی شخصیت محمد صدیق خان کانجو ''شہیدتھے۔مسکراتے چہرے سے ملنا اور گال پرپیار بھری تھپکی دے کراپنے مخاطب کا دل موہ لینا محمد صدیق خان کانجو ''شہید'' کی پہچان تھی ۔محمد صدیق خان کانجو صوبہ پنجاب کے ضلع لودھراں کی تحصیل کہروڑ پکا کے گاؤںعلی پور کانجو میںمحمد امین خان کانجو کے ہاں 2 دسمبر 1951 میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد 1962ء میںمغربی پاکستان کیلئے رکنِ اسمبلی'' ایم ایل اے'' منتخب ہوئے۔محمد صدیق خان کانجو نے ابتدائی تعلیم کہروڑ پکا سے اور بعد ازاںصادق پبلک سکول بہاول پورسے ثانوی تعلیم حاصل کی ۔ انگریزی ادب میں گریجویشن کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے، ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والدِ محترم محمد امین خان کانجو کے سیاسی مشن کی تکمیل کیلئے اپنے آبائی حلقہ کہروڑ پکا سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔1977ء کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے کاغذات جمع کرائے لیکن عمر کم ہونے پر انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔1979ء میں اپنا سیاسی گروپ بنایا اور بلدیاتی الیکشن میں واضح کامیابی حاصل کی۔سیاسی گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے گھریلو سیاسی ماحول نے ابتدائی راہنما کے طور پر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ 1983ء میںبھی کانجو گروپ ملتان کے گیلاانی گروپ کیساتھ مل کرشاندار کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ 1985ء کے عام انتخابات میں خورشید خان کانجو کے مقابلے میں30 ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کرکے نہ صرف خود ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے بلکہ ضلع بھر میں اپنے پورے پینل کو کامیاب کرایا اور پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ۔جس کے سربراہ وزیراعظم محمد خان جونیجو تھے۔ دو سال خوراک و زراعت کے وفاقی پارلیمانی سیکریٹری رہے۔۔ 1988ء میں جب محمد خان جونیجو حکومت ختم ہوئی تو میاںمحمد نواز شریف کی نگران حکومتِ پنجاب میںنگران وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔میاں محمد نواز شریف سے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ 1988ء میں آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے حلقہ این اے 117سے الیکشن لڑا اور پیپلز پارٹی کے ریلے کے باوجود کامیاب ہوئے اور ضلع ملتان میں آئی جے آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے واحد رکنِ اسمبلی تھے۔بینظیر بھٹو کی حکومت کے پہلے دور میں پہلی بارمحمد صدیق خان کانجو،میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں حزب اختلاف کا ایک حصہ بنے۔ بیس ماہ بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے اختتام کے بعد نگران حکومت میں انہیں وزارتِ اطلا عات و نشریات اور ایکسائز اینڈ ٹیکشیشن کے قلم دان سونپے گئے۔ 1990ء میں حلقہ این اے 118سے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور پیپلز پارٹی کے امیدوار مرزا محمد ناصر بیگ کو 20ہزار ووٹوں سے شکست دے کرتیسری مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔میاں محمدنواز شریف حکومت میں10ستمبر 1991ء میںمحمد صدیق خان کانجوکووزیرمملکت برائے امورخارجہ کاقلمدان سونپاگیا۔خارجہ پالیسی کے میدان میں شاندارخدمات سرانجام دیں ۔بین الاقوامی سطح پر مختلف عالمی فورمزپرپاکستان کی بھرپوراورقابل ستائش نمائندگی کی ۔1991ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انتہائی مدبرانہ اورٹھوس حقائق پرمبنی خطاب کیا۔بطور وزیرِ خارجہ قومی کشمیر پالیسی پرپاکستان کا مؤقف ہمیشہ دو ٹوک اور واضح انداز میں بیان کیا۔انہوں نے پاکستان کے پُرامن ایٹمی پروگرام کا ہر عالمی فورم پر دفاع کرتے ہوئے قومی سلامتی کے ایشو پر جرأت اور دلیری سے قومی مؤقف کی ترجمانی کی۔لودھراں کو ضلع کا درجہ دلانے کیلئے انتھک کوششیں کیں بالآخریکم جولائی 1991ء میں تحصیل لودھراں کو ضلع کا درجہ دِلاکرضلع لودھراںکے بانی متعارف ہوئے۔جہاںضلع بننے سے ہزاروں افرادکواپنے گھرمیں روزگارملا وہاںلاکھوں لوگوں کوضلع ملتان کے چکروں سے بھی نجات حاصل ہوئی۔ 18جولائی1993ء تک وزیرمملکت برائے امورخارجہ کے عہدے پر فائز رہے ۔ضلع لودھراںمیں مسلم لیگ کی کامیابی کے طور پر سمجھا جانے والامحمد صدیق خان کانجو 1993ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے امیدوار راناممتازاحمدنون سے حلقہ این اے 117 لودھراں میں الیکشن ہارگئے۔اس ہارنے کی وجہ ریاستی وزیرہونے کے ناطے وسیع پیمانے پر سفر کی وجہ سے انتخابی حلقے میںان کی غیر موجودگی تھی۔ 1993ء سے1996 ء تک کی مدت کے دوران زیادہ تر وقت انہوں نے لودھراںمیں گزارا ۔ تاہم ایک مرتبہ پھر اپنی مسکراہٹوں اور تھپکیوں کیساتھ جدوجہدشروع کی اورضلع بھرمیں مسلم لیگ کومضبوط کیا ۔ 1997ء کے الیکشن میں حلقہ NA118سے پیپلزپارٹی کے امیدوار مرزا محمدناصر بیگ کو40ہزارووٹوں سے شکست دے کرچوتھی مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوکرایک بار پھر میاں محمد نواز شریف کی کابینہ کا حصہ بنے اورانہیں دوبارہ11جولائی1997کو وزیر مملکت برائے امورخارجہ کاقلمدان دے دیاگیااور12اکتوبر1999تک اس عہدے پر فائز رہے۔1999ء میں جنرل پرویزمشرف نے میاں محمد نوازشریف کی جمہوری حکومت پر شب خون مارکر تختہ الٹاتو اس وقت بھی میاںمحمد نوازشریف کیساتھ تھے۔ لیکن میاں برادران کی جلاوطنی کے بعد2001ء کے اوائل میں مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئے ۔
 2001ء میں مقامی حکومتی انتخابات کیلئے خودضلع ناظم اور اپنے قریبی ساتھی میجر محمد اسلم خان جوئیہ کو تحصیل ناظم کہروڑ پکاکا امیدوار نامزد کر کے فعال طور پر الیکشن مہم شروع کی۔اس سیاسی دنگل کے تین روز قبل28 جولائی2001ء کو محمد صدیق خان کانجو جب اپنے آبائی شہر کہروڑ پکا میں سابق ایم پی اے وامیدوار تحصیل ناظم کہروڑ پکا میجر محمد اسلم خان جوئیہ ودیگر کے ہمراہ ا لیکشن کمپین کے سلسلے میںکریم بازار کہروڑ پکا میں امیدوار مزدور کونسلرجمیل کے پاس کارنر میٹنگ میں مصروف تھے کہ ان پر فائرنگ کر دی گئی۔محمد صدیق خان کانجوموقع پر ہی اللّٰلہ کو پیارے ہو گئے۔ میجر محمد اسلم خاں جوئیہ شدید زخمی ہو ئے۔جنہیں فوری طور پر بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور لے جایا گیا مگروہ بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اللّٰلہ کو پیارے ہو گئے۔حملہ آوروں نے محمد صدیق خان کانجو کے کزن ڈاکٹر محمد اکبر خان کانجواور شیخ ریاض احمد کو بھی گولیوں کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیا۔یہ وہی شہر ہے جہاں سے محمد صدیق خان کانجونے 1977 ء میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔محمد صدیق خان کانجو نے 49 سال8ماہ کی عمر میں وفات پائی۔قاتلوں کے اس سفاکانہ عمل کی صدر پرویزمشرف ، وزیر داخلہ معین الدین، مخدوم جاوید ہاشمی، میاں محمد اظہر، عبدالستار لالیکا، سید فخر امام، ممتاز خان کھچی، سید تسنیم نواز گردیزی، مخدوم شاہ محمود قریشی، میاں محمد سومرو، فاروق خان لغاری، چوہدری شجاعت حسین ، سید یوسف رضا گیلانی، راجہ ظفرالحق، سرتاج عزیزجیسے قومی راہنماؤں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے بھر پور مذمت کرتے ہوئے دلی دکھ و درد کا اظہار کیا اورشہدائے کہروڑ پکا سے محبت کا اندازہ اس وقت ہوا جب ان کی نمازِ جنازہ میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندرنظر آیا۔انجمن تاجران کہروڑ پکا نے شہر بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ۔
 وہ شہر حبس میں ٹھنڈی ہواؤں جیسا تھا 
غضب کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسا تھا
 اگرچہ ان کا وقت زیادہ تر ہوائی اڈوں اور غیر ملکی دارالحکومتوں میںگزرتا تھامگران کا دل لودھراں میں اپنے حلقے کے لوگوں کیساتھ دھڑکتا رہا۔ان کی مضبوط شخصیت نے ان کی خوشگوار فطرت کی وجہ سے انہیں ملک کے بڑے رہنماؤںکی صف میں لا کھڑا کیا۔شہید کانجو انتہائی دیانتداری، باہمی ہمدردی اور ایک بہترین سامع ہونے کی اہلیت کوبہتر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے مسائل کے ایسے حل نکالتے کہ عوام ان کی طرف کھچے چلے آتے۔ان میں کسی معاشرے کے انفرادی ارکان کی اجتماعی خواہشات اور توقعات کا پتہ چلانے کیلئے ضروری مگر کمیاب ذہانت اور دوراندیشی کی ایسی خصوصیات موجود تھیںکہ وہ انفرادی مفادات کو ازسرنو ترتیب دے کر انہیں اجتماعی مفادات کے حصول کی جدوجہد میں شامل کرتے جس سے لوگوں کے جذبات کو تحریک ملتی اور وہ ان کی حمایت کرنے پر آمادہ ہو تے۔ان کے دل میں خطے کے حسن اور انفرادیت کا گہرا احساس، دوسروں کیساتھ افہام و تفہیم پیدا کرنے اور مل کر کام کرنے کی اہلیت، اپنے پیروئوں کیلئے احترام اور مستقبل کیلئے ایک تصور بدرجہ اتم موجود تھا۔اپنے اصولوں پرسختی سے کاربندرہتے ۔عوام میں گھل مل جانے اورلوگوں کواپناگرویدہ بنانے میں دیرنہیں لگاتے تھے۔سیاسی مخالفین بھی ان کی سیاسی بصیرت کے معترف ہیں۔محمد صدیق خان کانجووقت کے مطابق اپنے پینل بناتے رہے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑتے رہے۔ ان کے پینلزسے الحاج جند وڈاخان بلوچ، احمد خان بلوچ، ملک محمدطیب خان اعوان، ملک سجادحسین خان جوئیہ ،میجر محمد اسلم خان جوئیہ ،محمد صدیق خان بلوچ ،نواب حیات اللّٰلہ خان ترین اور محمد قاسم خان ملیزئی کامیاب ہوتے رہے۔الحاج جند وڈا خان اپنی زندگی میںاورمحمد صدیق خان بلوچ،ملک طیب خان اعوان اوراحمد خان بلوچ نے محمد صدیق خان کانجو کی زندگی میں کسی دوسرے گروپ میں شمولیت اختیار نہیں کی اور ہمیشہ کانجو گروپ سے ایم پی اے کا الیکشن لڑتے رہے ۔ان کی سیاسی مشاورت کومحمد صدیق خان کانجو ہمیشہ اہمیت دیتے۔فرزندِ کانجو شہید نے اپنی کھوئی ہوئی توانائیاں بحال کیںاور کانجو شہید سے محبت کرنے والوں کی آس وامیدکے بجھتے دیئے میں اپنے جوان عزم اور پختہ ارادوں کا تیل ڈال کر اسے مخالفوں کے مزموم ارادوںکی قاتل ہوا سے بچایا اور اہلیانِ لودھراں نے پاکستان کے نئے بلدیاتی نظام میںسب سے کمسن ضلعی ناظم منتخب کر کے کانجو شہید کیساتھ اپنی محبتوں کا ثبوت دیا۔دو سال کے قلیل عرصے میںاپنے سے دوہری عمر کے تجربہ کارسیاستدان کو چاروں شانے چت کیا۔ 2013 ء کے قومی و صوبائی الیکشن میں شہید کانجو گروپ کوعوام نے ضلع بھرکی قومی و صوبائی اسمبلی کی تمام سیٹوں پرآزادحیثیت سے کامیاب کر کے تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔ کانجو شہیدکے سیاسی جانشین عبدالرّحمٰن خان کانجوکو سیاسی طور پر نا قابلِ شکست شخصیت کا درجہ حاصل ہے ۔ بلاشبہ تاریخ محمد صدیق خان کانجو شہیدجیسی شخصیات کو ہمیشہ عزت و احترام سے یادکرتی ہے اور وہ ہمیشہ زندہ وجاوداںرہتے ہیں بقول حضرت بُلھے شاہ  
 '' بُلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور''

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔