ایک روز ڈی آئی خان سے گھر کی طرف جارہا تھا کہ گاڑی میں ایک سرکاری ملازم کو فلائینگ کوچ کے ڈرائیور سے محو گفتگو تھا جس میں وہ شخص کسی ٹرپ بارے بات کررہے تھے کہ وہ پشاور جانے کیلئے کتنے روپے لیگا ۔تو ڈرائیور نے حسب روایت پہلے ڈیزل ک، ٹائیر وغیرہ کے مہنگے ہونے پر واویلا مچانا شروع کیا کیونکہ اسے یہ ڈر اتھا کہ جو ریٹ وہ بتایا گیا شاید اس پر وہ راضی نہ ہو ۔ لیکن دوسری طرف سرکاری ملازم نے بغیر چھیڑ چھاڑ کے مطلوبہ رقم دینے کی حامی بھر لی اور ساتھ ہی وہ جملہ بھی دہرایا جو ہمارے ہاں ہر جگہ ہر شخص کی زبان پر ہے کہ ''یار مفت سرکاری فنڈ ہے بے دھڑک خرچ کرنے کی کوئی فکر نہیں ''۔
حرام حلال بارے بحث چلی تو ایک دوست نے بڑا زبردست قصہ سنایا ۔ ان کے بقول ایک مسلمان تاجر تجارتی سامان خریدنے چین گیا ۔ وہاں کسی کمپنی والے سے ڈیل کرنے اس کی دفتر میں گیا ۔ مسلمان تاجر نے اس سے کہا کہ میں نے فلاں پروڈکٹ آپ سے خریدنی ہے لیکن آپ نے کرنا یہ ہے کہ اصل مال کی بجائے دو نمبر کا مال پیک کرنا ہے اور اس پر لیبل اصلی مال کا لگانا ہے ۔ جس پر چینی تاجر نے کہا کہ یہ تو دھوکہ ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے جس پر مسلمان تاجر نے کہا کہ ایسا ہی کرنا کیونکہ اس صورت میں ہمیں زیادہ نفع ملتا ہے ۔ بحث چل پڑی تو چینی تاجر نے مجبور ہوکر ڈیل کو فائنل کیا ۔ لیکن مسلمان تاجر سے کہا کہ آپ نے ابھی جانا نہیں بلکہ اس وقت کھانے کا وقت ہے اس لئے آپ نے میرے ساتھ ہی کھانا کھانا میں آرڈر دے رہا ہوں ۔ جس پر مسلمان تاجر نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن کھانا حلال ہی منگوانا ہم مسلمان حرام چیزوں بلی کتے کا گوشت نہیں کھاتے ۔ جس پر چینی دوست نے کہاکہ پھر آپ نے جو مال یہاں خریدا ہے کیا یہ حلال ہے ۔ یہ بھی تو حرام ہے ۔
یہ ایک مختصر کہانی ہے جو میرے ایک دوست نے مجھے سنائی یقینا اس کی تصدیق بارے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں یہی حالت ہے اور کوئی بھی دھوکے دھونس، جھوٹ ، مکاری ، کرپشن اور رشوت سے کمائے ہوئے پیسے کو حرام نہیں سمجھتا ۔ کتے کا گوشت ، بلی کا گوشت ، گدھے کا گوشت کوئی بھی کھانے کو تیار نہیں لیکن دوسروں کا حق مارنا ، ناجائر طریقوں سے ما ل بنانا کوئی بھی اسے حرام سمجھنے کو تیار نہیں ۔ اور یہی وہ چیز ہے جو نہ صرف ہماری آخرت کو برباد کررہی ہے بلکہ دنیاوی سطح پر ہمارے ملک کا بیڑا بھی غرق کررہی ہے ۔
رشوت کو چائے پانی کا نام دیا گیا ہے ، سفارش کو لوگوں کی خدمت ، دھوکے اور بددیانتی کو ہوشیاری کا نام دیا گیا ہے ۔ چور وہ نہیں جو رات کی تاریکی میں کسی کا مال لے اڑے ، ڈاکو وہ نہیں جو زور زبردستی کسی کا مال چھینے بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو اپنی عیاری سے دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں یہ لوگ بھی اتنے ہی قابل نفرت ہیں جتنے عام چور اور ڈاکو۔کسی پڑھے لکھے کسی عہدے پر براجمان کسی سرکاری ملازم سے کوئی کہہ دے کہ فلاں غریب کے گھر میں ڈاکہ ڈالے یا کسی ریڑھی والے سے کوئی چیز چوری کردے تو یقینا وہ اس پر تیار نہیں ہوگا لیکن بدقسمتی سے جب دفتر میں اسے قومی خزانے کا ایک روپیہ بھی ہاتھ آئے تو اسے ٹھکانے لگانے میں دیر نہیں کرتا ۔ تو کیا ان پیسوں میں اس ریڑھی والے کسی غریب کے ٹیکس کا پیسہ نہیں جو آپ چوری کررہے ہیں ۔ تو کیا یہ ڈاکہ نہیں کیا یہ چوری نہیں کیا یہ حرام نہیں ۔
ہم روز دیکھ رہے ہیں فلاں سابق وزیر ، فلاں سابق وزیراعظم ، فلاں سابق سیکرٹری اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں ۔ نماز جنازہ
پڑھنے کے بعد سب کے سامنے اسے خالی ہاتھوں قبر میں اتار دیا جاتا ہے ۔ تو کیا بحثیت مسلمان ہمارے لئے یہ کافی نہیں کہ ان سے عبرت لیں۔ حضرت عمر فاروق نے فرمایا ہے کہ موت سب سے بہترین نصیحت ہے تو کیا ہمیں رشوت لیتے ہوئے ، کرپشن کرتے ہوئے ، دھوکہ دیتے ہوئے ، بددیانتی کرتے ہوئے ، ملاوٹ کرتے ہوئے موت یاد نہیں آتی ۔ ہم کتنا کمائے گے ، ہزار ، لاکھ ، کروڑ ، ارب کھرب لیکن سب نے یہی رہ جانا ہے قبر میں ہمارے یہ اثاثے کسی صورت کام آنے والے نہیں قبر میں صرف ہمارے اعمال ہی ہمارے ساتھ ہونگے توکیوں ہم اپنی دائمی زندگی کو اس تھوڑی سی زندگی کیلئے خراب کررہے ہیں ۔