صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
منگل 28 اکتوبر 2025 

عوام کا احساس محرومی دور کرنے کا عزم!

؛شاہد ندیم احمد | پیر 27 جولائی 2020 

قیامِ پاکستان سے برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اسے بلوچستان کے عوام کے احساسِ محرومی کا پوری طرح ادراک ہے اور وہ اسے ختم کرنے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گی، مگر عملی طور پر یہ دعوے زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں ،اس کے نتیجے میں احساس محرومی ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھا اور اس نے علیحدگی پسندی کی جڑوں کو مضبوط کیاہے، اس صورتحال کو بیرونی دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ سے قوی امید تھی کہ اس پر عملدرآمد کے نتیجے میں بلوچستان کی تقدیر بدل جائے گی، مگر اس حوالے سے بھی بلوچستان کے لوگوں کی توقعات پوری نہ ہوئیں ،اس کااظہار بلوچی قیادت بڑی شد و مد سے کرتے رہتے ہیں۔ اس صورت حال میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بلوچستان کی ترقی کی ترجیحات کے تعین کی غرض سے وزیر اعلیٰ بلوچستان، وفاقی وزیر اقتصادی امور اور مشیر خزانہ پر مشتمل کمیٹی کا قیام ایک تازہ مستحسن اقدام ہے،یہ کمیٹی کمیونیکیشن زراعت، توانائی اور دیگر مجوزہ منصوبوں کا جائزہ لیکر ترجیحات مرتب کرکے وزیراعظم کو رپورٹ پیش کرے گی،تاہم اس کیساتھ بلو چستان میں احساس محرومی کے دوسرے عوامل پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے،چونکہ پاکستان کی مقتدرہ میں بلوچستان کے لوگوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، اسی لئے وہ حق حاکمیت اور وسائل پر اختیار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک حساس مسئلہ جبری گمشدگیوں کا بھی ہے، اب تک 5ہزار افراد لاپتا کئے جا چکے ہیں، جن کی بازیابی کیلئے احتجاج کے باوجود پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کیلئے، وہاں کے اقتصادی، سیاسی اور سماجی مسائل کا حل نا گزیر ہے۔
 اس میں شک نہیں کہ بلوچستان میں عوام احساس محرومی کے حکومت سے زیادہ ذمہ دار وہاں کے سردار ہیں۔ معدنی وسائل سے مالا مال بلوچستان میں سرداروں نے ریاست کو عام بلوچ عوام سے دور کئے رکھااور ایسے مسلح گروہ بنائے جو سندھ' پنجاب اور کے پی کے سے بلوچستان میں آکر بطور استاد'ڈاکٹر اور انجینئر کام کر نے والوںکو قتل یا بلوچستان سے نکل جانے پر مجبور کرتے رہے ہیں۔ بلوچ سردار عام شہریوں کو سدا، اپنا محکوم رکھنا چاہتے ہیں،اسی لیے بچوں کو تعلیم دلانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں ،تاکہ تعلیم کے ذریعے ترقی وشعوری سطح پر آگے بڑھنے سے بلوچ عوام محروم رہے ۔ بلوچی سردار کبھی اپنے مفاد کے حصول کیلئے حکومت سے مل کر عوام کا استحصال کرتے ہیں تو کبھی حکومت مخالف احتجاج میں عوام کو استعمال کرکے محرومی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔بلوچی سردار بلوچستان کے حقیقی نمائندے نہیں ،مگر طاقت کے زور پر زبردستی عوامی نمائندے بن کر بلوچی عوام کو احساس محرومی کے اندھیروں میں دھکیلنے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
اگر چہ تحریک انصاف حکومت بلوچی عوام کو احساس محرومی سے نکالنے کیلئے صدقے دل سے کوشاں ہے ،مگر کسی علاقے کی معاشی و سماجی ترقی کا عمل شروع کرنے سے قبل وہاں موجود مسائل کی نشاندہی بہت ضروری ہے۔ قبائلی اضلاع کے بعد بلوچستان کے اکثر علاقے غربت کی بدترین حالت میں ہیں، صوبے میں منصوبہ بندی اور مالیات کا نظام برق رفتار اصلاحات کا تقاضا کرتا ہے،جبکہ اب تک بلوچستان کی معاشی و سماجی ترقی کے اشاریے مایوس کن ہیں، صوبائی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے مختص رقوم ناکافی رہی ہیں۔ صوبے میں تعلیم کا فروغ ایک بنیادی چیلنج رہا ہے،تاہم افسوسناک سچائی یہ ہے کہ ہر سال بجٹ میں صوبائی حکومت اس مد میں فنڈز کا حجم کم کرتی جارہی ہے۔ صوبائی بجٹ میں کمی سے ترقیاتی کام متاثر ہورہے ہیں اور صوبے میں بے روز گاری ،غربت بڑھ رہی ہے،بلوچستان میں سرداری نظام اور غربت بڑھنے سے کچھ علاقوں میں عسکریت پسندی کو بڑھاوا دیا ہے، ایسے چند گروپوں کی وجہ سے ہی امن و امان کی مجموعی صورت حال بھی متاثر ہورہی ہے۔اس کی مین وجہ ایسے کرپٹ عناصر ہیں ،جنہیں بدعنوانی کے الزام پر اہم عہدوں سے ہٹایا جاتا ہے،مگر چند سال بعد وہی لوگ دوبارہ اعلیٰ مناصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔
 بلا شبہ تحریک انصاف برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہی بلوچستان میں امن'روزگار'تعلیم' صحت اور سیاسی استحکام کیلئے مسلسل کوشاںہے۔ اس حوالے سے حکومت نے بلوچستان میں نئے اور با صلاحیت افراد کو آگے لانے میں نمایا ں کردار ادا کیا ہے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو وفاقی حکومت ہر موقع پر بھر پورمددفراہم کررہی ہے ،تاکہ وہ صوبے کی بھر پور نماندگی کرنے کیساتھ بلوچ عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے عوام دوست نظام کو مضبوط بنا سکیں۔یہ حقیقی عوامی نمائندگی کا ہی نتیجہ ہے کہ جس صوبہ کے متعلق غلط طور پر یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وہ وہاں حالات کنٹرول میں نہیں ،اس صوبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔گوادر کی بندرگاہ نے ایک طرف پاکستان اور چین کی سٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط کیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کو تنہائی سے نکال کر ایک بار پھر بین الاقوامی برادری کے معاشی و تجارتی مفادات کیساتھ جوڑ دیا ہے۔بلوچ عوام کی پسماندگی اور محرومیوں کو جواز بنا کر بھارت نے صوبے میں تخریبی سرگرمیاں شروع کر رکھی تھیں'مسلح افواج کی جدوجہد سے ان سرگرمیوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔بلوچستان کے ایسے کچھ علاقے جو بدامنی کا شکار ہیں، وہاں سکیورٹی فورسز کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں۔ وزیر اعظم کا بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی دور کرنے کا عزم قابل تحسین ہے ،تاہم بلوچستان سمیت ملک بھر میں سیاسی استحکام اور بدعنوانی سے پاک نظام کویقینی بنا کر ہی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔