"میں گھر کے دروازے پر کھڑا اس کو اپنی طرف آتا دیکھ رہا تھا - اس کی عمر ساتھ آٹھ سال تھی - اپنے قد جتنی بیساکھیاں بمشکل وہ اپنی ننھی بغلوں میں پھنسا یے لنگڑاتا ہوا چل رہا تھا - کبھی اس کا بدن بیساکھیوں سے آگے نکل جاتا اور کبھی اس کی بیساکھیاں بدن سے پہلے آگے بڑھ کر بیلنس خراب کرہی تھیں جن سے مجھے صاف سمجھ آرہا تھا کہ اس کم سن سوار کیلیے یہ "بے سوار کے سواری " ابھی نئی ہے - وہ اور اس کا باپ ہمارے ڈراییور کیساتھ میرے پاس آکر رکے - اس کا باپ ڈراییور کا پرانا دوست تھا - اس کا تعلق ڈیرہ اسمعیل خان سے تھا اور مجھ سے اپنے جگر کا کویی مسئلہ پوچھنے آیا تھا - جب وہ اپنا مسئلہ پوچھ چکا تو میں نے پوچھا کہ بچے کو کیا ہوا ہے ؟ وہ بولا کہ صاحب جی - پولیو ہوگیا ہے -" فطری طور پر میرا اگلا سوال تھا "قطرے پلائے تھے؟" وہ چمکتی آنکھوں سے ہاتھ کانوں پر لگا لگا کر بولا "نا صاحب ! توبہ کرو- اس کے پیٹ میں حرام کا ایک قطرہ بھی نہیں جانے دیا - خدا کی قسم ! کافروں کی سور والی دوایی پی کر آخرت میں معذور ہونے سے بچا لیا اس کو"- میں ان "علم و حکمت" سے لبریز جملوں میں غرق کبھی اس کو دیکھ رہا تھا کبھی اس بچے کو اور اس دوران مجھے نہیں پتا چلا کب وہ ٹاپک بدل کر کشمیر کے موضوع پر آگیا کیوں کہ اس کا دادا کشمیر کا تھا - وہ جی بھر کر مودی اور بھارت کو گالیاں دیتا رہا - اس دوران اس کی اس تقریر سے زیادہ توجہ میری اس بچے پر تھی جو سامنے گرانڈ میں فٹ بال کھیلتے بچوں کو دیکھ رہا تھا - جیسے خود کو کسی گول کیپر یا کسی فرنٹ پلیئر کی جگہ تصور کررہا ہو - اس دوران نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کا موازنہ مودی سے کرنے لگا تھا اور مجھے کشمیر وادی میں مسلمان بچوں کو اپنی ضد اور رعونت کی زنجیر سے یرغمال بنانے والے مودی اور اپنی سگی اولاد کو اپنی جہالت اور نام نہاد مسلمانیت کے زہر سے ڈس کر عمر بھر بیساکھیوں کا تحفہ دینے والے اس باپ میں کویی زیادہ فرق نہیں نظر آرہا تھا جو اس وقت میرے سامنے کھڑا اپنے ایمان پر اس بچے کی داہنی ٹانگ وار دینے پر کھڑا فخر کررہا تھا-
آج بھی میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ سوکھی ٹانگ اور ٹانگ سے زیادہ موٹی بیساکھی ہے - آج تحقیق کی تو ایک اور چیز میں ٹاپ پوزیشن کا تمغہ اپنے دیس کے نام سجا نظر آیا- آج کی ترقی یافتہ دنیا میں جن تین ملکوں میں ہی پولیو کا وایرس اثار قدیمہ بن کر باقی رہ گیا ہے ان میں پاکستان، افغانستان اور نایجیریا شامل ہیں اور ہم ان تینوں ممالک میں سر فہرست ہیں - حال ہی میں ایک سروے منظر عام پر آیا ہے جس کے مطابق محض 2019 میں پاکستان میں پولیو کے 58 نئے کیس تشخیص ہوئے ہیں - اس تبدیلی میں "خیبر پختونخوا " سر فہرست ہے جہاں بس بنوں شہر میں ہی 61 کیس "نئے پاکستان" کا حصہ بنے ہیں - زیادہ اعداد و شمار میں نہیں جانا ہے کیوں کہ ہماری قوم ویسے ہی بہت ریاضی دان ہے - ہاں البتہ میں اس بیساکھی والے وایرس کی تفصیل میں ضرور جانا ہے کیوں کہ اس کے بغیر میرے قلم کا حق ادا نہ ہوگا۔
پولیو ایک مہلک وایرس سے پھیلتا ہے جو خوراک اور پاخانے سے آلودہ پانی کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے - یہ ہمارے حرام مغز پر حملہ کرتا ہے اور یہ حملہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ ہر 100 میں سے ایک کیس ساری عمر کیلیے فالج زدہ ہوجاتا ہے- اس کا کویی علاج نہیں لیکن ایک ویکسین ہے جس سے اس کا نوے فیصد رکاو ہوجاتا ہے - دنیا کہ ہر ملک میں یہ ویکسین بچوں کی پیدایش کی ویکسین شیڈول کا حصہ ہے - اس ویکسین کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کو " دو بوند زندگی " بھی کہا جاتا ہے -
آج پاکستان میں جس طرح کچھ بے تحقیق کے منبروں کے فتووں کی سیاست نے بڑوں کی روحوں کو فالج زدہ کردیا ہے اسی طرح ان بچوں کوآخرت کی نجات کا بہانہ بنا کر دایمی معذوری کا تحفہ دینے میں بھی کچھ ایسے ہی فتوے کار فرمان ہیں - شمالی وزیرستان اور خیبر پختونخوا میں بہت سے اہل ایمان کا یہ ماننا ہے کہ اس ویکسین کو طاقتور بنانے کیلیے اس میں "خنزیر کی چربی اور الکوحل" ڈالی جاتی ہے - اور اس کا اگر ایک قطرہ بھی پیٹ میں چلا گیا تو جنت حرام ہو جائیگی - ایسے لوگوں کا جب انٹرویو کیا گیا تو ان میں سے کچھ کے منہ سے اس وقت بھی "نسوار" کی بدبو آرہی تھی جب وہ اس ویکسین کے حرام اور نشہ آور ہونے پر اپنا ماہرانہ تجزیہ پیش کررہے تھے - جن کو چکن کڑاہی اور گدھے کی چربی والی کڑاہی میں فرق محسوس نہیں ہوتا ان کو بھی بس سونگھ کر اس ویکسین میں "چربی " کی بدبو آجاتی ہے - - - جامعہ الازہر جیسی مستند اسلامی یونیورسٹی سے فتوی آجانے کے باوجود کچھ منبر ان بچوں کی امنگوں اور چھلانگوں کو اپنے بے تحقیق کے فتوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں- اور سورہ الحجرات کی یہ آیت بھول جاتے ہیں :
یایہا الذِین امنوا اِن جام فاسِق بِنبا فتبینوا ان تصِیبوا قوما بِجہال فتصبِحوا عل ما فعلتم ندِمِین
" اے ایمان والو ! جب کویی فاسق تمہارے پاس کویی خبر لیکر آییتو خوب تحقیق کرلیا کرو - ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچادو اور بعد میں تمھیں نادم ہونا پڑے "
یہ اس قوم کی کہانی ہے جو اپنے ان بچوں کی پیدایش پر پورے پورے گاوں کو مٹھایی کھلاتی ہے اور بچہ نہ پیدا ہو تو خود حرام حلال ہر طرح کی معجونیں کھاتی ہے اور اپنی بیویوں کو کسی پیر فقیر جوگی کیساتھ "خلوت میں فیضیاب " کروانے سے بھی دریغ نہیں کرتی -
اب تک سب سے زیادہ جو اعتراض پولیو ویکسین پر سامنے آیا وہ یہ ہے کہ "اگر یہ مفت گھر گھر فراہم کی جاتی ہے تو ضرور کچھ دال میں کالا ہوگا اور یہودی سازش ہوگی " - میری حکومت اور WHO سے گزارش ہے اس پر کچھ قیمت لگادیں کیوں کہ ہماری غیرت مند قوم "مفت " کچھ نہیں لیتی - ہان اگر آپ مفت بریانی دینے لگیں تو ہم لاین لگانے کو بھی راضی ہیں - کیوں کہ بریانی اصل صحت کی ضامن ہے---- - !
میرے غیرت مند بھائیو بہنو! پوری دنیا سے پولیو ختم ہو چکا ہے سوائے ان تین ملکوں کے- جب ایسا ہوتا ہے تو WHO خود گرانٹ فراہم کرتا ہے کہ وہ بیماری جو ناپید ہورہی ہے دوبارہ جنم نہ لے- خدشہ ہوتا ہے کہ آج اگر 50 کیس ہیں تو کل 50 ہزار ہونگے کیوں کہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے - دوسرا وہم یہ ہے کہ پاکستان میں اور بھی بہت سی بیماریاں ہیں تو پولیو ہی کیوں اہم ہے؟ اہم تو سب ہیں - بہت سی کیمپینز چل رہی ہیں- میں خود ہیپاٹایٹس کیمپین کا حصہ ہوں لیکن ہیپاٹایٹس کے مقابلے میں پولیو کو بچانا بہت ہی آسان اور سستا ہے اسلیے کم از کم اس پر یہ غریب حکومت زور دے رہی ہے - ڈبلیو ایچ او ہیپاٹایٹس جیسی مہنگی ویکسین کسی بھی ملک کو فری نہیں دے سکتا اور نہ پاکستان خود یہ ویکسین افورڈ کرسکتا ہے - مزید یہ کہ ہیپاٹایٹس کا علاج کم از کم موجود ہے اور ویکسین اتنی سستی نہیں - پولیو کا علاج نہیں لیکن ویکسین مفت ہے - ان باتوں کی وجہ سے یہ کیمپینز چل رہی ہیں - لیکن ہماری "نوابی سوچ" ایسی ہے کہ ہمیں کسی فری ویکسین سے نہ علاج چاہیے اور نہ آرام آتا ہے -
سگے والدین کے اس "سوتیلے پن " کی ایک اور وجہ جو سروے میں سامنے آئی ہے وہ یہ عام تصور ہے کہ اس ویکسین میں ایسے اجزا شامل ہوتے ہیں جن سے انسان کی "فرٹیلٹی " یعنی " بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت " متاثر ہوتی ہے - ان عقل کے اندھوں سے مجھے بس یہ پوچھنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ پورا پاکستان جو یہ قطرے پیتا رہا ہے اس کی آبادی آج باییس کروڑ کیسے ہوجاتی - میں نے ایک انٹرویو میں یہاں تک سنا کہ اس ویکسین میں ایسے ہارمون ہوتے ہیں جن سے بچہ وقت سے پہلے بڑا ہوکر ماں باپ کا نافرمان بن جاتا ہے - میں نے اس دوایی سے وقت سے پہلے بڑی تو کسی بچے کی ٹانگیں نہیں ہوتے دیکھیں ہان البتہ نہ پینے سے وقت سے پہلے ان ٹانگوں کو معذور اور سوکھتا ہونے کا مظاہرہ ابھی دس دن پہلے ہی دیکھا ہے -
میں جانتا ہوں ہمارے ملک میں پولیو ویکسین سے نفرت کی ایک بہت بڑی وجہ آپریشن "نیپچون سپییر " ہے جس میں شکیل آفریدی جیسے ایک پاکستانی ڈاکٹر نے ہیپاٹایٹس بی کی ویکسین کی کمپین کا ورکر بن کر اسامہ بن لادن کی مخبری کی اور اس ملک کی آنے والی نسلوں کو ہمیشہ کیلیے پولیو جیسے دہشت گرد کے حوالے کر ڈالا - اس واقعہ کے بعد اب تک 80 سے زیادہ پولیو ورکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں - زیادہ تر اموات شمالی وزیرستان میں ہوییں جہاں طالبان جیسے لوکل گروپس نے ان پر امریکی جاسوسی کا الزام لگا کر ان کے خون سے اپنی جنت کا راستہ روشن کرلیا - لیکن میرا ایک سوال ہے ؟ کیا اس ایک ملک فروش ڈاکٹر کی سزا ہم اپنے بچوں کو دینگے؟ کیا شمالی وزیرستان میں ہر گھر میں اسامہ بن لادن رہتا ہے جو اس کے رہنے والے اتنے ہراساں ہیں؟ جن علاقوں میں لوگوں کو یہ خوف ہے کہ یہ لوگ جاسوسی کرتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو خود لیکر کسی ہسپتال کسی کیمپ میں کیوں نہیں جاسکتے کہ کم از کم اس سیاست اور دہشت کی نذر دو کمزور ٹانگیں تو نہ ہوں؟ ہماری حکومت بھی اس وقت اس کیمپین کو بہت تیزی سے آگے لیکر چل رہی ہے - خیبر پختونخوا میں تو پانچ سو سے زیادہ والدین کو گرفتار بھی کیا گیا تھا جو بچوں کو کسی بھی وجہ سے قطرے نہیں پلارہے تھے - بعد میں ان سے بیان حلفی اور وعدہ لیکر ان کو رہا کردیا گیا- خدا جانتا ہے کہ وہ وعدہ کتنا وفا ہوا -
میرے پاس لامحدود الفاظ اور ان گنت اعداد و شمار ہیں لیکن وہ جادو نہیں ہے جس سے میں ایک بچے کو بھی دو بوند زندگی کے پلا کر اس کو دو بیساکھیوں سے بچا سکوں - خدارا ! اپنے گھروں اور اپنے ذہنوں سے اپنی ضد اور جہالت کے اس مودی کو نکال باہر کریں، جو ہمارے ہی بچوں کو پولیو کی "پیلٹ گن" سے اندھا اور معذور کررہا ہے - یہ ذمہ داری ہمارے سیاست دانوں ' کالم نگاروں ' ہمارے علما ہمارے مولویوں ہمارے استادوں ہمارے محلوں کے چیرمین' ہمارے فنکاروں ہمارے ڈرامہ ہدایتکاروں ہمارے کھلاڑیوں ہمارے تاجروں ؛ الغرض ہر اس شخص پر عاید ہوتی ہے جس کی دو ٹانگیں سلامت ہیں -
اپنے جمعے کے خطبوں میں ہر دفعہ "ان اللّٰلہ یا مروا بالعدل و الحسان " کیساتھ اس کی تبلیغ کیجیے-
اپنے قران کے درسوں میں والدین کو ترغیب کیجئے --
اپنی نعت خوانیوں میں اس جہالت کی تردید کیجئے -
اپنی شادیوں بیاہوں میں اس احساس کی تشہیر کیجئے -
اپنے سیاسی جلسوں میں ایک نعرہ "پولیو مردہ باد" کا بھی لگوایے-
اپنی سکول کی کلاسوں میں ایک ٹیسٹ ماں باپ کا بھی لیجئے -
شییر کیجیے- ایسے کالمز کو پرنٹ کر کے مسجدوں کے باہر بانٹیے----
اپنے ملازموں اور اپنی فیکٹریوں کی لیبر کو پیسے کا لالچ اور تنخواہ میں اضافے کا بونس دیجییتا کہ وہ اپنے سارے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاییں--
خدا ر کچھ کیجیے - آج اگر ہم نے پولیو کے اس جن کو بوتل میں قید نہ کیا تو یقین جانیئے ہمارے سپورٹس کی دکانوں میں فٹبال اور بیٹ کیساتھ ساتھ "بیساکھیاں " اور بغل میں رکھنے والے " آرم ریسٹ " بھی نظر آنے لگیں گے - اب یہ فیصلہ ہم پر ہے کہ " دو بوند زندگی چاہتے ہیں یا دو بیساکھیاں کھڑکتی ہوئی چاہتے ہیں"۔