صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
منگل 28 اکتوبر 2025 

منظم مافیاکیخلاف کاروئی کے منتظر عوام !

:شاہد ندیم احمد | ہفتہ 25 جولائی 2020 

پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے ،یہاں کے کسان نے پانی و بجلی کی کمی، ناقص اور مہنگی ادویات اور کھادوں کے باوجودہمیشہ غذائی فصلوں کی ملکی ضروریات سے زیادہ پیداوار حاصل کی ہے۔ ملک میںگندم، چاول، گنا اور کپاس کی ایک عرصہ سے بمپر فصل ہو رہی ہے، مگر واضح منصوبہ بندی نہ ہونے اور کچھ مافیاز کے کردار کے باعث ان فصلوں کی نہ صرف قیمتیں کنٹرول میں نہیں رہتیں، بلکہ کئی اجناس کو وافر قرار دے کر ملکی ضروریات کو مدِنظر رکھے بغیر برآمدکر دیاجاتا ہے اور پھر قلت ہونے پر زیادہ نرخوں پر درآمد کی جاتی ہے۔ گزشتہ گندم، آٹے کے شدیدبحران کے بعد متعلقہ محکموں کی جانب سے مافیاز پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت تھی،مگر جان بوجھ کر چشم پوشی کا مظاہرہ کیا جاتارہا ہے ،اسی وجہ سے ابھی گندم کی فصل کو آئے چند ہفتے ہوئے ہیںکہ اس کے نرخ ڈیڑھ گنا ہ بڑھ گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے جہاں متعلقہ محکموں کو گندم ، آٹے کی قیمتوں میں توازن رکھنے کی ہدایت کی ہے،وہاں حکومت نے ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ شکنی کیلئے 4 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کے آرڈر بھی دئیے ہیں،مگر اس پر بھی منافع خوروں کی نظر ہو گی۔اس مافیا کیخلاف آہنی ہاتھوں سے کیوں نہیں نمٹا جارہا ، حکومت جب تک منافع خور مافیاکیخلاف بلا امتیاز سخت کاروائی کو یقینی نہیں بنائے گی ،عوام یونہی لو ٹتے رہیں گے، ذخیرہ اندوز ملک عوام اور انسانیت کے دشمن ہیں ،ان کو نشانِ عبرت بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ 
 یہ امر واقع ہے کہ فلورملوں کو پسائی کیلئے مطلوبہ مقدار میں گندم کی فراہمی نہ ہونے کے سبب اور فلور ملوں کو کھلی منڈی سے براہ راست گندم کی خریداری کی ممانعت ومشکلات کے بناء پر طلب ورسد کا توازن متاثر ہو،ا جس کا فائدہ آٹا کی کھلی منڈی کے مواقع پرست تاجروں نے اُٹھا یاہے۔تاجر مافیا حکومتی کو تاہیوں کا بھر پور فائدہ اُٹھانے کا عادی ہو چکا ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر حکومت اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے غلطیاں دہرانے کی عادی ہو چکی ہے ۔اس لیے حکومتی اعلان کے باوجود ممکن نظر نہیں آرہا کہ حکومت مقررہ ریٹ پر عوام کو آٹا فراہمی کا وعدہ پورا کر سکے،کیو نکہ آٹا قیمتوں کو اعتدال میں صرف انتظامی فیصلوں کے باعث لانا ممکن نہیں ہوگا، اس کیلئے مارکیٹ کی قوتوں کا مقابلہ اور رسد کی بھرپور فراہمی کے ذریعے طلب سے کہیں زائد آٹا وافر مقدار میں مارکیٹ میں یقینی بنانے کی ضرورت ہوگی ،اس کے بعد ہی حکومت قابل ہوگی کہ آٹا کی قیمتوں کو سرکاری نرخنامہ کے مطابق لا سکے۔ حکومت کو یوٹیلیٹی سٹورزمیں آٹا کی وافر فراہمی اور ملوں سے براہ راست خریداری کا مجرب طریقہ کار اپنانا ہوگا۔ قبل ازیںانتظامیہ نے مختلف مقامات پر سرکاری ریٹ پر عوام کو آٹا فراہم کرنے کے جو احسن اقدامات کئے تھے، اس سلسلے کو دوبارہ شروع کرنا ہو گا۔
یہ اس دور حکومت میں نہیں،ہر دور حکومت میں مشکل امر رہا ہے کہ حکومت جب بھی کسی چیز کی قیمت مقرر کرتی ہے تومنظم مافیا اسے غائب کردیتا ہے۔ اس کی حالیہ مثالیں سب کے سامنے ہیں کہ سرکاری ریٹ مقرر ہوتے ہی مارکیٹ سے چینی ، گندم، آٹا غائب ہوگیا ہے۔یوٹیلیٹی سٹورزپر بھی چینی اور آٹا دستیاب نہیں، چینی کا سرکاری ریٹ ستر روپے مقرر کیا گیا، لیکن مارکیٹ میں کہیں دستیاب نہیں،صوبائی دارالحکومت میں چینی نوے روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔ تاجروں کے اس موقف میں بھی وزن ہے کہ چینی کھلی مارکیٹ میں بیاسی روپے مل رہی ہو تو ستر روپے میں فروخت کیسے کی جاسکتی ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے بھی حکومتی اعلان کے باوجود مہنگی چینی خریدی تھی تو سستی اور مقررہ قیمت پر وہاں بھی فروخت ممکن نہیں، آٹا کی قیمتوں کے حوالے سے بھی یہی صورتحال ہے۔ آٹا سرکاری ریٹ پر دستیاب ہی نہیں اور سپلائی بھی متاثر ہے ،اسی لیے آٹے کی فی بوری قیمت میں پانچ سو روپے تک کا اضافہ دیکھا جارہا ہے ،جبکہ شہر میں بیس کلو آٹا کم وبیش ساڑھے بارہ سو روپے میں فروخت ہونے لگا ہے، اس پر ستم طریفی یہ ہے کہ نانبائیوں نے بھی روٹی کا وزن مزید گھٹا دیا ہے۔
ملک کے غریب عوام منافع خور مافیا کے ہاتھوں سر عام لٹ رہے ہیں ،جبکہ حکومت صرف احکامات کی حد تک ذمہ داری ادا کررہی ہے ۔اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے محکمہ خوراک کی بھی کوئی تیاری نظر نہیں آرہی ، بلکہ ملکی سطح پر ایک منظم منصوبے کے تحت گندم منڈی سے اُٹھا کر بحرانی کیفیت پیدا کی گئی ہے، جس کا غذائی تحفظ کے وفاقی وزیر نے قومی اسمبلی میں بیان دیکر اعتراف وخود نشاندہی کی ہے۔ حکومت جتنا مرضی گندم در آمد کرلے،اگر گندم مارکیٹ میں آکر مہنگے داموں فروخت ہوگی تو عوام کو کیسے رلیف ملے گا۔حکومت کو آڑھتیوں کے گوداموں میں ذخیرہ گندم پر چھاپے مارنے چاہئے، لیکن حکومت کے رویئے سے تولگتا ہے کہ ذخیرہ شدہ گندم مارکیٹ میں لانے کیلئے سنجیدہ نہیں، گندم کو مارکیٹ سے غائب ہونے یا کئے جانے کی صورتحال پر بروقت اقدامات کیے جانے ضروری تھے ۔اس تنا ظر میں اب جو لوگ گندم کی قلت کا فائدہ اُٹھا کر گندم در آمد کر کے کروڑوں کمائیں گے اور آڑھتیوں کے گوداموں سے اچانک مہنگے داموں گندم مارکیٹ میں آئے گی، اس کا کیا بنے گا،نیز فلورملز مالکان کوکٹائی کے موقع پر گندم کی خریداری سے روکنا اور خریدی گئی گندم کو زبردستی سرکاری تحویل میں لینے کا کیا جواز ہے ،جبکہ دوسری جانب آڑ ھتیوں کے گوداموں میں گندم کے بڑے بڑے ذخیرے ہونے سے صرف نظرکیا جاتا رہاہے۔ 
ہمارے تئیں تمام کوتاہیوں کی ذمہ داری محکمہ خوراک اور بلا سوچے سمجھے فیصلے کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ گندم وآٹا کی قلت کے حوالے سے غور کرتے ہوئے شوگر مافیا کیخلاف تحقیقات کے دوران آنے والے عوامل حکومتی فیصلوں اور ملی بھگت جیسے امور کو پوری طرح نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ گندم وآٹا بحران کا فوری خاتمہ اور سرکاری نرخوں پر آٹا کی فراہمی کا وعدہ پورا کرنا وفاقی کیساتھ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے ،اس کیساتھ بحران کی وجوہات اور متعلقہ محکموں کے ذمہ دارعناصر کا تعین بھی بہت ضروری ہے، تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتحال سے عوام کو بچایا جاسکے ،عوام منظم مافیاکیخلاف کاروئی کے منتظر ہیں ۔حکومت کو سزا وجزا کے عملی اقدام کیساتھ اپنے اعلانات کے مطابق سرکاری ریٹ پر گندم ، آٹے کی فراہمی کو جلد ازجلد یقینی بنا نا ہو گا، تاکہ عوام کی مایوسی کے خاتمہ کیساتھ حکومت پر اعتماد بحال ہو سکے ۔

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔