یوں تو تعلیم کا مقصد علم کا پہچاننا ہے۔یہ علم خواہ کسی بھی قسم کا ہومگر تعلیم کے اعلیٰ مقاصد یہ ہیں کہ وہ اشخاص کی فطری صلاحیتوں کو ابھارے، ان کی نشوو نما کے مواقع فراہم کرے اور انہیںمعاشرے کیلئے مفید شہری بنائے۔افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم و تربیت کو وہ بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ افراد کی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقوام اپنے تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی اپنے نصب العین، مقاصد ِ حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ اردو میں تعلیم کا لفظ دو خاص معنوں میں مستعمل ہے۔ ایک اصطلاحی اور دوسرے غیر اصطلاحی۔ غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش، پیغام، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرتۖ کی تعلیم یا تعلیمات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم یا تعلیمات اور شری کرشن کی تعلیمات وغیرہ۔لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب، سماجی عوامل و محرکات، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ، طریقہ تدریس، نصاب، معیار تعلیم، تاریخ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔چنانچہ ہر قوم ایک ایسا نظامِ تعلیم پیدا کرنے کی سعی کرتی ہے جو اس کی ضروریات کو پورا کرے اور اس کے فلسفہ ٔ زندگی سے ہم آہنگ ہو۔کیوں کہ یہ وہ فیکٹری ہے جہاں ملک و قوم کی مشینری کیلئے پرزے تیار ہوتے ہیں ۔اگر یہ پرزے ناقص ہوں تو ظاہر ہے کہ مشینری اپنا کام تسلی بخش طریقے پر نہیں کرے گی۔لہٰذا نظامِ تعلیم زندگی کا ایک ایسااہم حصہ ہوتاہے کہ اس سے باقی تمام شعبے متاثر ہوتے ہیں۔مثلاًانگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو انہیں بہت جلد احساس ہوا کہ بزورِ شمشیر وہ یہاں زیادہ دیر قابض نہیں رہ سکیں گے ۔چنانچہ انہوں نے ہندوستانیوں کے ذہنوں کو غلام بنانے کا منصوبہ بنایا ۔جس کی ایک جھلک میکالے کی رپورٹ میں مل سکتی ہے۔انہوں نے ہندوستان میں جو نظامِ تعلیم رائج کیا جو ان کی ضروریات کے عین مطابق تھا۔ان کی خوش قسمتی کہ سر سید جیسا ذہین شخص اس لائحہ عمل کو اپنانے پر تیار ہو گیا۔انگریز کی سیاست اور شاعرانہ چالیں سر سید احمد خان کی دیانت اور ذہانت پر غالب آگئیں ۔ سرسید احمد خان نے یہ تو کہا تھا کہ اس تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو گا ،دوسرے میں سائنس اورسر پر لا الہ الا اللّٰلہ کا تاج ہو گا۔مگر ان کا یہ نقطۂ نظر انگریز کی چالاکی اور عیاری کے سامنے کامیاب نہ ہو سکا۔ اکبر اللّٰلہ آبادی نے انگریزی چالوں کے پھیلتے ہوئے جال اور مسلمانوں کی کسمپرسی کومحسوس کیا۔انگریزی تعلیم کے پنجہ سے مذہب کا گلا گھٹنے اور اسلامی روح کے پرواز کر جانے کا کس قدر دکھ تھا ۔
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے۔۔۔۔جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے
اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ انگریز کالج میں آزادی کا گلا گھونٹ کر غلامی کا درس دے رہا تھا ۔نوجوانوں کو خوگر ِ تسلیم اور انگریزی برکات کا ثنا ٔخواں بنا رہا تھا۔یہ کام فرعون سے زیادہ خطرناک ہے ۔یہ جسم کی بجائے روح کا قاتل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا ۔۔۔۔افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
علامہ اقبال نے قوم کے تعلیمی پہلو پرابتداء میں تو کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ خاص طور پر اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں اس موضوع پر انہوں نے کچھ نہیں لکھا البتہ آخر میں انہوں نے اس قومی پہلو کو بھر پور اہمیت دی اور ضرب کلیم میں تو ''تعلیم و تربیت'' کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں۔ جن میں صحیح تعلیم اور اس کے مقاصد کی نشان دہی کی گئی ہے۔ علامہ اقبال کی نظر میں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر اور انسان کی تسخیر ِحیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے اور اسکیساتھ ہی خدا، کائنات اور انسان کو ایک کلی نظام کی حیثیت سے دیکھنا ہے۔ چنانچہ محض مغرب کی مادی تعلیم یا محض دینی مدارس کی بظاہر روحانی تعلیم کو مقصود ٹھہرا لینا ہی درست نہیں۔ انسانی روح اور اسکی مادی ضروریات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں دیکھا جا سکتا ۔ یہ نظام تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ انسان کی مادی اور روحانی دونوں ضروریات کو پیش نظر رکھے اور جسمانی و روحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دے۔ اسکیساتھ ہی تعلیم کا مقصد انسان کو تسخیر کائنات کیلئے تیار کرنا بھی ہے۔ جسکا مطلب اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا ہے کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مدد دے۔علامہ محمد اقبال انگریزی نظامِ تعلیم کی فرعونی صفات سے پوری طرح آگاہ تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ انگریز کا دیا ہوا نظامِ تعلیم مسلمانوں کے حق میں زہرِ قاتل کا درجہ رکھتا ہے۔ایک تو وہ بے مقصد تعلیم دے رہا ہے اور دوسرے مسلمانوں کے فلسفہ ٔ زندگی کی بھی نفی کرتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا۔۔۔۔اب کہاں سے آئے صدائے لا الہ الااللّٰلہ
علامہ اقبال عورتوں کو ایسی تعلیم دینا چاہتے ہیںجو ان کے صنفی تقاضوں کو پورا کرے ۔تاکہ وہ اپنے مخصوص فرائض ادا کر سکیں۔چونکہ مرد کی تعلیم صرف اس کیلئے ہے مگر عورت کو دی گئی تعلیم سارے خاندان کے کام آتی ہے اور ماں بچوں کے ہر پہلو سے اثر انداز ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیںکہ
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن ۔۔۔۔کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
شاعر مشرق علامہ اقبال تعلیم کے متعلق اپنے نظریات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے کی تربیت اور سیرت سازی کیلئے استاد اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہٰذا استاد کو بھی بہتر نمونہ ہونا چاہیے ۔استادکاکام طالب علم کی راہنمائی کرناہے اور طالب علم خود اپنی ذات کے پردوں کو ہٹاتا چلا جاتا ہے اور بالآخر ایک دن اس سے پوری طرح آشنا ہو جاتا ہے۔طالب علم پر جبر کرنا ،اسے اسباق رٹوانا اور اسے ہمارے موجودہ طریقہ ٔ امتحان کیلئے تیار کرنا اس کی فطری صلاحیتوں کو ختم کر دیتا ہے۔وہ خودی کے بلند بام پر چڑھنے کے قابل نہیں رہتا۔وہ مادیت کی اتھاہ تاریکیوں میں کھو جاتا ہے۔