حکمران نام ہے رحم دلی کا ،عفو و درگزر کا ، ذاتی دشمنوں کو معاف کرنے کا۔وہ عوام کی وسیع تر مفاد میں لڑنے بھڑنے سے کنی کتراتا ہے۔وہ عوام کیلئے ان کی فلاح و بہبود کیلئے دوستی کرتا ہے اور دشمنی ۔وہ حقیقت میں کرسی اور اقتدار کو آنی جانی شے سمجھتے ہیں اور اس کو عوام کی امانت قرار دیتا ہے وہ قومی وسائل کو اپنی ذات کی بجائے قوم پر لٹاتا ہے وہ اپنی منصب اور کرسی کو بھی قوم کی پراپرٹی سمجھتے ہیں ۔کبرو غرور اس سے کوسوں دور اور وہ سراپا عجز کا پیکر ہوتے ہیں ۔اس نظام کے اندر (جو مملکت خداداد میں کارفرما ہے ) ایک ہی پارلیمنٹ کے اندر حکومت اور اپوزیشن کو گاڑی کے دو پہئے سمجھا جاتا ہے دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔حکومت اور اس کے اراکین اپنی کپتان(وزیر اعظم)کی قیادت میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے پالیسیاں بنا کر قانون سازی کرتی ہے اور اس کو حکومت کا حق گردانا جاتا ہے تو اپوزیشن جب سمجھتی ہے کہ حکومت اور اس کے اراکین کے آراء اور فیصلوں میں سقم ہیں تو وہ اس کے اصلاح کیلئے آواز اٹھاتی ہے حکومت نہ مانے تو اسمبلی کے اندر اپوزیشن احتجاج کرتی ہے واک آئوٹ کرتی ہے اور عوام کی وسیع تر مفاد میں اپنی ترامیم کو منوا کر رہتی ہے تو یہ بھی اپوزیشن کا حق سمجھا جاتا ہے اور حکومت ٹھنڈے پیٹوں یہ برداشت کرتی ہے۔
اب آتے ہیں PTI کی موجودہ حکومت کی طرف ۔ایسی کونسی خاصیت ہے جو اس کے کپتان عمران خان اور اس کے درباریوں میں پائی جاتی ہے ۔حقیقت میں یہ ون مین شو ہے جس کے کپتان کو گھنٹہ گھر قرار دیا جائے تو صحیح ہو گا۔کپتان جس اسمبلی کے اندر بیٹھے ہیں اس میں اپوزیشن کی موجودگی ایسے لگ رہاہے جیسے خان کے دل پر مونگ دل رہے ہوں۔جن عوام نے خان کو اس اسمبلی میں بھیجا ہے انہی عوام کی ایک قابل ذکر تعداد نے اسی کیساتھ اسمبلی میں بیٹھے اپوزیشن اراکین کو بھیجا ہے اپوزیشن اور حکومت دونوں اس نظام کا حصہ ہیں لیکن خان اور انکیساتھی ان کی حیثیت ماننے کو تیار نہیں ہیں۔خان ، ان کیساتھی اور اپوزیشن تینوں ایک ہی پاکستانی عوام کو جوابدہ اور ان کے حقوق کے پاسداران ہیں۔حکومت اپوزیشن کے سارے ٹبر کو چور اور ڈاکو گردان کر اس کو ان کا حق دینے کو تیار نہیں لیکن جب ان کے اپنے مبینہ چوروں کی بات آتی ہے تو حکومت'' تیرا چور مردہ باد اور میرا چور زندہ باد'' کا نعرہ مستانہ بلند کرتی ہے۔موجودہ حکومت کے حکمران پاکستانی تاریخ کے واحد حکمران ہیں جن کے اندر برداشت نام کا مادہ ہی نہیں وہ اور ان کا کپتان ہر وقت آمادہ جنگ رہتے ہیں چونکہ ان کا کپتان مہم جویانہ اور جنگجو طبیعت کا مالک ہے لہٰذا ان کے سارے ساتھیوں کی اہلیت کا معیار یہ ہے کہ جو جتنا زیادہ گالی دینے والا ہو جو ہر وقت اپوزیشن کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے کو تیار ہوتا ہے وہ اتنا ہی کپتان کا مقرب ہے۔اپوزیشن کی معمولی تنقید پر ''گلوں اور واوڈوں'' کا لشکر میدان میں اتر کر اپنا ریٹنگ بڑھانے لگ جاتے ہیں۔اگر حکومت اور اس کے کارپردازان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت ہمیشہ رہے گی اور اس ملک کو چلانے کے ذمہ دار صرف وہ ہیں تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے اور وہ دن دور نہیں جب ان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہو جائے گا اور وہ اپنی تھوک کو چاٹنے پر مجبور ہونگے اور پاکستانی عوام یہ بات لکھ دیں کہ آج کے حکمرانوں نے اس ملک کے اندر اناء ، تکبر اور غرور کے جو بیج بو دئیے ہیں توجب یہ تناور درخت بن کر نفرتوں کی فصل بن جائینگے تو کپتان کے وہ ساتھی جو آج کپتان کی خوشنودی اور اپنی نام نہاد وزارت کیلئے گالیاں دیتے ہیں تو جب بازی الٹ جائے گی تو یہی درباری ایک ایک کر کے اپنے کپتان کیخلاف وعدہ معاف گواہ بن کر اپنی گلو خلاصی کرینگے اور سارا ملبہ اپنے کپتان کے اوپر ڈال کر رفوچکر ہو جائینگے کیونکہ کپتان کے ٹیم میں دودھ کے مجنوں اور فصلی بٹیروں کی ببہتات ہے۔حکومت عوام کے وسائل عوام کی سمجھتی ہی نہیں کبھی کہتے ہیں کہ صدر اور وزیر اعظم نے اپنی اخراجات میں کمی کرکے اتنے کروڑ قومی خزانے میں جمع کئے کبھی سپیکر کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ ہم نے اسمبلی اور سپیکر کے اخراجات میں کمی کر کے اتنے کروڑ قومی خزانے میں جمع کئے(بچت کی یہ ساری رقم ایک ارب سے کم بنتی ہے) لیکن جب ان کے اربوں کے اخراجات کی بات آتی ہے تو وہ چھپ سادھ لیتے ہیں دور جانے کی ضرورت نہیں آپ پارلیمنٹ کے دفتر میں داخل ہوتے ہی محسوس کرینگے کہ میں کسی اور دنیا میں آگیا ہوں جہاں لوڈشیدنگ کا تصور ہے نہ کبھی پارلیمنٹ ہائوس کے مکینوں کے کو لوڈشیڈنگ کے نام سے شناسائی ہے۔وزیر اعظم ہائوس ، منسٹر کالونی اور سپیکر ہائوس کے گھروںکی ائیر کنڈیشنڈ راہداریوں اور برآمدوں میں وزراء اور انکے نوکر 40 ڈگری سنٹی گریڈ سے اوپر کے پارے میں کوٹ پہنے سردی سے ٹھٹر رہے ہوتے ہیں اور اس سے چند فرلانگ کے فاصلے پرعوام چلچلاتی دھوپ اور لوڈ شیڈنگ کی عذاب جھیل رہے ہوتے ہیں۔حکمران کبرو غرور کے پیکر بنے ہر مخالف کیخلاف ریاستی طاقت کے استعمال سے بھی نہیں چوکتے اور پھر اپنی ناکامیوں اور نا اہلیوں کا تمام ملبہ کبھی عدلیہ پر ڈالتی ہے کبھی کہتے ہیں کہ ادارے تعاون نہیں کرتے ارے بھائی اتنی اہلیت سے عاری ہو تو دفع ہوکر عوام کی جان چھوڑو ۔
حکومت ٹماٹڑ سے شکست کھا گئی۔آٹا مافیا کے سامنے سرنگوں ہو گئی۔چینی مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال گئی اپنے ارد گرد منڈلاتے پٹرول مافیا کو راتوں رات اربوں کمانے کا موقع دے کر خاموش ہوگئی ۔صحت اور تعلیم کے بجٹ پر کٹ لگا کراس رقم کو اپنے سیاسی بلیک میکر ساتھیوں میں بانٹ گئی۔اوورسیز سے ٹکٹوں کی مد میں ان ہی کیساتھیوں نے کروڑوں ڈکار لیں اور کپتان خاموش ہیں کیونکہ یہاں بھی تیرا چور مردہ باد اور میرا چور زندہ باد کا جذبہ کارفرما رہا۔ماضی میں وزراء اور سکینڈلز کا چولی دامن کا ساتھ رہا لیکن جب بات لیک ہوتی تو ٹوپی ڈرامہ کر کے ایک انکوئری بنا لی جاتی لیکن تبدیلی سرکار ساری اچھی روایات کو ہڑپ کر گئی ہے اس کے کار خاص اور فرعونیت کی پیکر زلفی بخاری پر کرونا کے حوالے اس کی مشکوک کردار پر انگلیاں اٹھیں لیکن کپتان کا مقرب ہونے کی وجہ سے کوئی اس پر لب کشائی کی جرئات نہ کر سکا ۔ابھی حال ہی میں اس پر ایک اور سنگین الزام لگا ہے کہ اس نے PIA کی نیویارک میں موجود قیمتی روزویلٹ ہوٹل کا سودا ٹرمپ کے داماد کیساتھ کر لیا ہے لیکن پہلے ایوی ایشن کے ایک سیکرٹری نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا پھر ہوابازی کے وزیر غلاسم سرور اعوان نے چیخ و پکار کر لنکا ڈھا دی بتایا جاتا ہے کہ زلفی بخاری نے کچھ عرصہ قبل ٹرمپ کے داماد سے ملاقات کی اور میڈیا پر بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری نے ٹرمپ کے داماد سے ملاقات کی اور انکیساتھ تجارت سمیت ملک کیلئے باہمی دلچسپی کے امور پر بات کی ۔اندر کے باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ کوئی تجارت وغیرہ پر بات نہیں ہوئی تھی کہ تجارت اس کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا بلکہ یہ روزویلٹ ڈیل کو فائنل کرنے کی بات چیت تھی جس کی آڑ میں زلفی ٹرمپ کے داماد کو فائدہ دے کر ایک تو امریکی حکمران اشرافیہ سے تعلقات بنانا چاہتے تھے جو کہ پاکستانی اشرافیہ اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتی ہے اور دوسرا اپنا بھاری کمیشن پکا کرنا چاہتی تھی جس کیلئے زلفی نے کپتان کی اشیر باد سے لمبا چوڑا چکر چلانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔یہ ایک نہایت مجرمانہ فعل اور گھنائونا کھیل تھا جو کہ فی الوقت کامیاب نہ ہو سکا لیکن پتہ نہیں کہ یہ مشیر صاحب اور اس کے دیگر ساتھی اور کپتان کے کار خاصوں نے قومی امور میں اور کیا کیا گل کھلائے ہونگے۔موجودہ کابینہ میںزلفی اور دیگر 14 سے زائدمشیر کابینہ کے غیر منتخب ممبران ہیں اور وہ خود کو عوام کو جوابدہ سمجھتے ہیں نہ ہی کابینہ کو ۔اور یہ تمام کے تمام عمران خان کے ذاتی انتخاب ہیں۔وہ کچھ بھی کرے عمران خان ان کیخلاف بات سننے کو تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ اب کابینہ کے اندر کوئی حق پرست وزیر اور مشیر حق گوئی کا مظاہرہ کر کے اپنی وزارت اور مزوں کو کیوں خطرے میں ڈال دے؟یہی وجہ ہے کہ کابینہ کے تمام ارکان نے غیر منتخب مشیروں کے ''کارناموں '' پر چھپ سادھ لی ہے لیکن اندر اندر یہ لاوا پکتا جارہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔