صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
بدھ 29 اکتوبر 2025 

ہمارے نوجوان اور کویڈ19

معیزہ اقبال، کراچی | منگل 21 جولائی 2020 

 پاکستان خوش قسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے کہ جس کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ یو این ڈی پی کی ہومن ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی تقریباً65 فی صد آبادی نوجوان نسل پر مشتمل ہے جو کہ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور باہمت بھی اور ان میں کسی بھی قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ اور متعدد مواقوں پر پاکستانی نوجوانوں نے اپنے آپ کوثابت بھی کیا ہے کہ وہ اپنے ملک وقوم کی خدمت کرنے کیلئے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔
پاکستانی نوجوان ضرورت کے وقت ماضی میں بھی ہمیں قومی خدمت کے جذبے کیساتھ ہمیشہ مصروف عمل نظر آئے ۔ چاہے وہ سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں یا زلزلے کی صورت میں قدرتی آفات، ہمارے نوجوانوں کا جذبہ ،لگن،محنت اور اپنی قوم کیلئے خدمت کرنے کا شوق قابل دید و ستائش رہا ہے۔آج کا نوجوان مختلف شعبہ ہائے زندگی میںاپنا نام روشن کرنے کیساتھ ساتھ سوشل ورک میں بھی نمایاں اور قابل قدر کردارادا کر رہا ہے۔اور خدمت خلق کے دینی اور ملی جذبے سے سرشار ہے۔
پوری دنیا اس وقت کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے اور پاکستان میں بھی اپنے پنجے گھاڑ چکا ہے ۔ دنیا بھر میں کویڈ کے کروڑوں متاثرین اور لاکھوں کی تعداد میںقیمتی جانوں کی اموات کی طرح پاکستان میں بھی اس وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور ہزاروں قیمتی جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیںاور اس تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ صرف یہ بلکل اس وائرس کی وجہ سے دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی معاشی غیر یقینی اور عدم استحکام کیساتھ ساتھ غربت اور بے روزگاری میں بھی اچھا خاصا اضافہ ہوچکا ہے۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد چاہے وہ شعبہ صحت سے وابستہ میڈیکل اور پیرامیڈیکل کے کارکنان ہو ں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین یا پھر صفائی ستھرائی کرنے والے محب وطن پاکستانی ہر کوئی اس مشکل صورت حال میں پوری تندہی کیساتھ اپنا بھر پوراور مثبت کردا ر ادا کر رہا ہے۔ اور ان کے شانے بشانہ نوجوانوں کی بھی ایک کثیر تعداد کسی نہ کسی صورت میں ملک وقوم کی خدمت کے جذبے کیساتھ مختلف کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
قدرت کی مہربانی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب ذیادہ ہے اوران کی عمریں 18سے 35 سال کے درمیان ہیں۔یہ ریاست،حکومت ، اداروں اور معاشرے کا کام ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو کس طرح مفید اور کار آمد منصوبوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ خصوصاً اس وقت جب حکومت کو کرونا جیسی بڑی جنگ کا سامنا ہے۔
کویڈ 19کے وائرس سے نمٹنا ایک بہت بڑا قومی چیلنج ہے اور اس چیلنج سے نبرد آزما ہونا اکیلے ریاست کیلئے ممکن نہیں ہے۔ اس جنگ سے نمٹنے کیلئے زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے و الوں کو ریاست کیساتھ کھڑا ہو نا ہو گا۔ اور اپنے تما م تر اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ یہ وقت الزام تراشی ، مقابلہ بازی ، سیاسی پوائینٹ اسکورنگ اور تنقیدی تیر چلانے کا نہیں بلکہ اس جنگ کیخلاف لڑنے کو قومی فریضہ سمجھتے ہوئے جو جس سطح پر بھی کر سکتا ہے اسے اپنامثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔کیونکہ یہ وقت اس قدرتی وبا ء کیخلاف بحثیت قوم متحد ہونے کا ہے اور ہر کسی کو حصہ بقدر جسہ کے مصداق اپنا کردار ادا کرنے کا ہے نہ کہ غیر ذمہ دارانہ تنقید کرنے اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کا۔
ان حالات کے پیش نظر معاشرے کے دیگر طبقات کیساتھ ساتھ نوجوانوں کے کندھوں پر بھی بھاری ذمہ داریا ں عائد ہو تی ہیں۔ تا کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی مجموعی صورت حال سے بہتر طور پر نبرد آزما ہوا جا سکے۔ نوجوانوں کو کرونا وائرس کے حوالے سے شہروں کیساتھ ساتھ ملکی دور دراز دیہاتوں میں گلی محلوں کی سطح پر عوام میں شعور و آگاہی پیدا کرنی ہوگی کہ وہ کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کر کے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے خاندان کے تمام افراد کو اس جان لیوا مرض سے بچاسکتے ہیں۔عمر رسیدہ افراد یا وہ لوگ جو کہ دل کی بیماریوں، گردے کے امراض، جگر یا کینسر جسے مرض میں پہلے سے مبتلا ہیں ایسے افرادکے جسم میںعالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق کرونا وائرس کیخلاف قوت مدافعت کم ہوتی ہے اور وہ اس وائرس کیلئے آسان ٹارگٹ ہو سکتے ہیں ۔ کروناکیخلاف یہی قوت مدافعت یعنی بیماری کیخلاف لڑنے کی قوت ہی بچاؤ کا سبب بنتی ہے ۔ایسے افراد گھر سے غیر ضروری طور پر بلکل بھی باہر نہ نکلیں۔ اس لیے کہ ابھی تک پوری سائینسی دنیا اس وائرس کا علاج دریافت نہیں کر سکی ہے ایسے میں صرف احتیاطی تدابیر ہی اپنا کر بچاؤ کیا جا سکتا ہے۔وائس آف امریکہ کے پروگرام ویو تھری سکسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 239 سائنسدانوں نے عالمی ادارہ صحت کو لکھا ہے کہ کرونا وائرس کے جراثیم ہوا کیساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہیں اس لیے عالمی ادارہ صحت کومذید حفاظتی تدابیر پر غور کرنا چاہیے۔
ملک بھر کی یونیورسٹییوں ، کالجوں، سکولوں ، کوچنگ سینٹرز اور مدارس میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں ۔ اور ہمارے طلبہ اورنوجوان اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ لہذا یہی وقت ہے کہ ہماری نوجوان نسل PUBG اور ارتغرل کے حصار سے نکل کر اپنی عوام کی خدمت کیلئے آگے آئیں۔ بعض بڑے شہروں میں نوجوان خدمت کا قومی فریضہ احسن طور پر انجام دے رہے ہیں اور ایک منظم طریقے سے کرونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہونے والے دیہاڑی داروں ، مزدوروں ، بیواؤں اور حتی کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید پوشوں کی مدد کر رہے ہیں اور ان تک راشن پہنچانے کے علاوہ بعض تو تعلیمی فیسوں اور ضرورت مندلڑکیوں کی شادیوں تک کے اخراجات کا بندوبست کرتے نظر آتے ہیں۔ اس مشن کیلئے نوجوان اپنے دوستوں ، رشتہ داروںاور مخیر حضرات سے رابطہ کرتے ہیں اور ان کو اس مشکل صورت حال سے نکالنے میں کافی حد تک مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
شہروں میں بسنے والے نوجوانوں کی طرح گاؤں اور قصبے کی سطح پر بھی نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا۔ صرف یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ یہ کام حکومت کا ہے اور حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی عوام کی مدد کریں۔ بلکہ خود بھی بھر پور کردار ادا کرنے کیلئے رضاکارانہ طور پر اپنے کو پیش کرنا ہوگا۔
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
نوجوانوں کو عوام کی مدد کیلئے تمام سیاسی ،سماجی تنظموں سے رابطے کے عمل کو مضبوط کرنے کے علاوہ مخیر حضرات تک بھی رسائی حاصل کرنی ہوگی اور ان کو بھی عوام کی مد د کرنے کیلئے قائل کرنا ہو گا ۔ اس کیساتھ ساتھ شفافیت اور نگرانی کے عمل کو بھی مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔یہ دیکھنا ضروری ہے کہ امدادی رقوم و اشیاء بلا امتیازس اصل مسحقین کے پاس پہنچ بھی رہی ہیں یا نہیں۔امدادی عمل میں کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک سے اجتناب کیا جائے۔ امدادی عمل ہر طرح کے سیاسی وابستگی، لسانیت، فرقے یا مذھب کی بنیاد پر نہیں ہو نا چاہئے ۔بلکہ ہر کسی کو ایک نگاہ اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے دیکھا جائے۔
اس کے علاوہمارے نوجوانوں کو ایک اہم پہلوجو کہ ہمارے معاشرے میں ایک غیرذمہ دارانہ رویے کا ہے اس پر بھی توجہ دینی ہو گی ۔ اگرچہ حکومت نے ٹیسٹ کروانے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ کر لیا ہے مگر اس کے باوجود لوگوں کی ایک کثیر تعداد اب بھی ایسی ہے کہ جن میں کرونا وائرس کے علامات تو موجود ہیں مگراسکے باوجود وہ ٹیسٹ نہیں کرا رہے جسکی بڑی وجہ معاشرے کا ایسے متاثرین کیساتھ روا رکھے جانے والا تلخ سلوک ہے۔افواہیں اور خوف بھی بہت سے لوگوں کو علاج کرانے سے روک رہا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ کرونا وائرس سے متاثرہ شخص سے نفرت کرنے اور ان سے برا سلوک کرنے کی بجائے اس مرض کیخلاف لڑنے کیلئے مریض میں ہمت اور حوصلہ پیدا کرے تاکہ مرض کی بر وقت تشخیص ہو سکے اور قیمتی جانوں کو بچایا جاسکے کیونکہ علاج میں تاخیر اور جان بوجھ کر لاپرواہی مریض کو سنگین صورت حال سے دو چار کر سکتی ہے۔ یہ نوجوانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خوفزدہ لوگوں کو قائل کریں تا کہ وہ ٹسٹ کروانے اور علاج پر آمادہ ہو سکیں۔ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ عوام میں کرونا مرض کے علامات اور اس سے بچاؤ کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے متعلق آگاہی دینے کے علاوہ اس شعور کو بھی بیدار کریں کہ متاثرہ مریض سے بیماری کے دوران اور بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد ان کا سلوک اچھا ہو۔ نوجوانوں کو عوام کو مایوسی سے نکال کر تمام ممکنا اقدامات اٹھاتے ہوئے حکومت سے ساتھ مل کر بھی اور اپنے طور پر بھی بہتری کے عمل میں اپنا حصہ ملانا ہوگا تا کہ جلداز جلد اپنے ملک کو اس وباہ سے نجات دلائی جا سکے اور پاکستان میں پھرسے پہلے جیسا نظام زندگی بحال ہوسکے۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔