اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کی پی آئی اے سربراہ تقرری حکومتی غیرسنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔سپریم کورٹ میں پی آئی اے سربراہ کی تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو عدالت میں پی آئی اے کے جرمنی میں بھیجے گئے طیارے کا ذکر آیا۔
پی آئی اے بورڈ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جہاز مالٹا میں فلم کی شوٹنگ کیلئے استعمال ہوا جس کے بعد جرمنی گیا، شوٹنگ کی مد میں ادارے کو دو لاکھ دس ہزار یورو ملے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے کے لوگو کیساتھ کیا معلوم کونسی فلم شوٹ ہوئی ہوگی، فلم بنانے والی کمپنی اسرائیلی ہونا بہت سنجیدہ بات ہے، پی آئی اے نے اپنا ایک جہاز ہی بھگوا دیا اور مزید چار جہاز بھی گرائونڈ کیے ہیں، بقیہ تین جہاز کہاں فروخت ہوئے کچھ معلوم نہیں، کیا کھول کر کباڑ خانے میں تو نہیں دے دیے، کیا ایسے حالات میں موجودہ انتظامیہ کو کام کرنے دیں؟ کھلی عدالت میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا، پی آئی اے والے صرف کاغذی کارروائی کرکے آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈیپوٹیشن پر سربراہ کی تقرری غیرقانونی ہے، ارشد ملک سے پوچھ لیں وہ کون سا عہدہ رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم اپنے علاج کیلئے جہاز کو لندن لے گئے، پی آئی اے کا جہاز انکے علاج تک لندن کھڑا رہا، عدالت کو سب معلوم ہے ہمارا حافظہ کمزور نہیں، ہم نے جانا ہو تو جہاز ملتا ہے نہ ٹکٹ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد محمود اپنی ایئرفورس کی سروسز سے دستبردار ہو کر پی آئی اے میں آجائیں، فوج نے پاکستان اسٹیل ملز کو سنبھالا تو کچھ ڈیلور نہ کیا، اسٹیل ملز ہر ماہ منافع دیے بغیر اربوں کا خسارہ کررہی ہے۔ وکیل نے گزارش کی کہ ایئرفورس سے ریٹائرڈ آفیسر کو پی آئی اے میں چیف ایگزیکٹو لایا گیا تو یونین نے انہیں آفس میں بند کردیا تھا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ کی دلیل مان لیں تو پھر ساری حکومت کے دفاتر بند کردیں، آپ کی دلیل ہے آرمی کا ڈنڈا نہ ہو تو یونین والے پی آئی اے کو چلنے نہیں دیں گے، کیا حکومت اتنی ناکام ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب کچھ ایڈہاک ازم پر چل رہا کچھ تبدیل نہیں ہوا، سی ڈی اے کا چیئرمین تک قائم مقام لگایا ہوا۔