صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعرات 18 اپریل 2024 

ذمہ دار کون۔؟؟؟

عمران ظفر بھٹی | جمعرات 23 جنوری 2020 

پاکستان میں ایک کے بعدایک بحران آرہاہے اس میں تنقیدکرنے والے بھی ہیں اوراصلاح کرنے والے بھی ہیں گزشتہ دنوں ایک تحریر پڑھنے کا موقع ملا جس میں موصوف نے پنجاب کے دکھ گنوائے اور کہا کہ پنجاب نے باقی تین صوبوں سے ظلم کیا مگر کبھی کسی نے پنجاب کے دکھ بیان نہیں کیے تو جناب سب سے پہلے تو جناب کے علم میں یہ بات نہیں کہ خطہ سرائیکستان جسے آپ نے جنوبی پنجاب کا نام دیا پنجاب کا حصہ کبھی نہ تھا کیونکہ یہ ایک الگ ریاست تھی جو پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعدکسی شرط کے بغیر پاکستان سے ملحق ہو گئی اور اس خطہ کو پنجاب میں شامل کیا گیا ۔ جناب نے بزدار کو رنجیت سنگھ سے بھی گیا گزرا سمجھا جو کہ سرائیکیوں سے بغض کی نشانی ہے اور انہی تخت لہور اور گریٹر پنجاب کیلئے کام کرنے والوں کی یہی بیماری ہے کہ وہ اس وسیب سے ہر جگہ بغض نکالتے ہیں اور اس خطہ کے لوگوں کو کمتر سمجھتے ہیں اس کی ایک مثال حال ہی میں وزیر اعلیٰ یوتھ کمپیٹیشن میں دیکھنے کو ملی جب خطہ سرائیکستان کا ایک نوجوان عدنان فدا جس کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے نے اپنے ضلع اور ڈویژن کو ٹاپ کر کے اس علاقے کی نمائندگی پنجاب میں حاصل کی تو پنجاب میں اس کے ڈریس اور حالت کو دیکھ کر ہر جگہ اس سے جو سلوک کیا گیا وہ ہمیں معلوم ہے۔ وہاں پر منصف بھی تخت لہور کے غلام اور اسی علاقے کے تھے مگر پھر بھی اس باہمت نوجوان نے تمام مشکلات کو ٹھوکر مارتے ہوئے کامیابی حاصل کی اور ایک مقابلے میں پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی مگر جو معاوضہ مقرر تھا آج تک اسے نہ ملا اس سے زیادہ زیادتی اور کیا ہوگی اس خطہ کے باسیوں سے۔ مگر افسوس یہ لوگ گریٹر پنجاب کا رونا رو رہے ہیں ۔

موصوف نے اپنی تحریر میں کہا کہ تقسیم کے وقت پنجابیوں کا قتل کیا گیا تو جناب کیا یہ بتانا پسند کر ینگے کہ وہ کون تھے جنہوں نے قتل کیا جناب وہ سکھ پنجابی ہی تھے ۔ خطہ سرائیکستان نے اس خطہ کی ہمیشہ خیر خواہی چاہی ہے اور عمل بھی کیا جس کی مثال بہاولپور ریاست موجود ہے جو کہ سرائیکیوں نے پنجاب میں ضم کی ۔ اسی طرح کئی مرتبہ اس ملک کا اقتدار تخت لہور کے پنجابیوں کے ہاتھ میں دی۔ نواز شریف کون ہے ایک پنجابی ہی ہے ۔ جسے اس خطہ کے لوگوں نے اسے اقتدار بخشا مگر اس نے کیا کیا۔ اس خطہ کے عوام کو ہمیشہ تمام تر ترقیاتی منصوبوں اور سہولیات سے محروم رکھا۔ جناب نے ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ پنجاب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ملکی وسائل پر قابض رہا ہے ۔ جناب پنجاب ملک وسائل پر قابض رہا نہیں اب بھی قابض ہی ہے جس کی مثال پانی ہے اس خطہ کا کبھی چکر لگائیں اور ہمیں کسی نہر میں پانی بہتا ہوا دیکھا دیں جبکہ ست ند دریا (سندھ) کا سب سے زیادہ حصہ پانی کا گزر اسی خطہ سے ہوتا ہے جو کہ اس ملک کا سب سے بڑا دریا ہے ۔ یہ یاد رکھیں کہ پورے ملک سے یہ دریا 55 فیصد گزرتا ہے جبکہ صرف خطہ سرائیکستان سے 45 فیصدگزرتا ہے مگر اس کا نام سندھ رکھ دیا گیا اور تاریخ سے ہمیں گمراہ کیا جاتا ہے ۔ اور اس دریا کا 20فیصد پانی بھی اس خطہ کو نہیں دیا جاتا ۔ اس خطہ سے پاکستان بھی کی 48فیصد گندم اسی خطہ میں پیدا ہوتی ہے جبکہ چاول 37 فیصد پیدا ہوتا ہے جبکہ آم ، انار، کھجور و دیگر اجناس کا بہت زیادہ حصہ بھی اسی خطہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ علاقہ سرسبز و شاداب علاقہ ہے مگر اس خطہ کو پانی نہ دیکر تخت لہور صرف اس خطہ سے نہیں بلکہ پورے ملک سے زیادتی کر رہا ہے کیونکہ پانی نہ ہونے کیوجہ سے کاشتکاری بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے اور پیداوار کم ہورہی ہے۔

اسی طرح شوگر ملز مالکان زیادہ تر اپرپنجاب کے بزنس مین ہیں جو کہ اس خطہ کے لوگوں سے گنا آج بھی 80روپے سے 150روپے تک من خریدتے ہیں جبکہ پھر اسی گنے سے بننے والی چینی 80روپے کلو دیتے ہیں ۔ اسی طرح فلور ملزکے مالکان بھی اپر پنجاب کے بزنس مین ہیں جو 1200 روپے تک من خریدتے ہیں اور پھر 2200 روپے من تک آٹا اسی علاقہ کے لوگوں کو فروخت کرتے ہیں تو پیارے زیادتی اس علاقے کے لوگ نہیں تخت لہور کے شاطر بزنس مین کر رہے ہیں اور پنجابیوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور ہر بار پنجابی ، پنجابی کھیل کر ان سے ووٹ لیتے ہیں اور پھر اقتدار میں آجاتے ہیں ۔ مگر اس خطہ کے لوگوں کے پاس اقتدار تو نصیب سے آتا ہے اور وہ بھی جناب جیسے لوگوں کو ہضم نہیں ہوتا۔ جناب کی یہ بات مان لیتا ہوں کہ بزدار ایک نا اہل ایڈمنسٹریٹر ہوگا۔ مگر میری ایک بات یاد رکھئیے گا ۔ ایسے شاطر اور بے ایمان جو کہ عدلیہ سے سرٹیفائیڈ ہوں ان سے ایسے نا اہل بہتر ہیں کیونکہ کم از کم ایسے ایڈمنسٹریٹر جان بوجھ کر غلطیاں نہیں کرتے اور وقت کےساتھ ساتھ سیکھ جائیں گے۔ مگر بے ایمان اور شاطر ایڈمنسٹریٹر پوری قوم کو بیچ دینگے اور خبر تک نہیں چلے گی۔ اور ایسے لوگوں کیوجہ سے ہی ہمارے ملک کے لوگ دوسرے ممالک میں روزگار تلاش کرنے کیلئے اپنے پیاروں سے دور چلے جاتے ہیں ۔

چند جگہوں پر جناب نے کچھ سچ بھی بیان کیے جس پر شکرگزار ہوں جس میں ایک جگہ جناب نے مانا کہ شریف خاندان نے کسانوں کو ہر جگہ پریشان کیا تو جناب یہ بالکل ٹھیک ہے اسی طرح گجرات کے چوہدریوں کو بزنس مین کہا جو کہ سچ ہے مگر یہاں پر تھوڑا سا اختلاف ہے کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میں زراعت کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں اور کسانوں کو بہت سہولیات دیں ۔ بے شک انہوں نے صنعتوں پر بھی برابر توجہ دی اور صنعتوں پر توجہ دینا بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے میرے خیال میں ملکی معیشت کا بہت زیادہ ددارومدار صنعت پر ہے اسی صنعت سے ہی ملک کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہوتا ہے اور جب کسی ملک کی ایکسپورٹ بڑھتی ہے تو ملک کی معیشت بہتر ہوتی ہے اکر صرف امپورٹ زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ملک سے پیسہ باہر جا رہا ہے اور ملک کی معیشت کا بیڑا غرق ہو تا جائے گا۔ اس لیے صنعت اور زراعت دونوں ملک کے مفاد میں ہیں مگر ان دونوں میں زراعت کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے یہ بات درست ہے کیونکہ یہ ایک زرعی ملک ہے ۔

 معذرت کےساتھ کہ اس ملک پر سب سے زیادہ حکومت ہمارے پنجابی بھائیوں کی رہی ہے چاہے وہ فوجی دور ہو یا سول دور مگر ایک بات ضرور ہے کہ ہر دور میں اس خطہ سرائیکستان سے زیادتی کی گئی ہے پنجاب کےساتھ کیا دکھ ہوا ہے۔ پنجاب سے کچھ زیادتی نہیں ہوئی اگر پنجاب سے انڈین پنجاب الگ ہوا تو اسی پنجاب کو خطہ سرائیکستان پر مسلط کر دیا گیا اور گزشتہ کئی دہائیوں سے اس خطہ کی عوام کو الگ صوبہ کا لولی پاپ دیا جا رہا ہے اور اس سارے کھیل میں ہمارے ملک محترم خلائی مخلوق بھی شامل ہے ۔ اب تو اس اس خطہ کے ان لوگوں کو اغواءکیا جا رہاہے یا ان کو ڈرانے کیلئے قاتلانے حملے کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ الگ صوبہ کی آواز بلند نہ کریں جس کی مثال چند دن قبل کی ہے جب رحیم یار خان کے لالہ اقبال بلوچ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا ۔ ان لوگوں کیلئے اپنا حق مانگنا بھی جرم بنتا جا رہا ہے اس خطہ کے لوگوں کو نہیں معلوم کہ وہ جمہوری لوگ ہیں یا خلائی مخلوق ہے جو بھی ہے اس خطہ کے لوگوں سے زیادتی پر تلے ہیں مگر انہیں شاید معلوم نہیں جو لولی پاپ وہ یہاں کے لوگوں کو دے رہے ہیں آخر میں جو ان لوگوں کے ہاتھ میں بچتا ہے وہ وہ اس لولی پاپ کی سٹک ہے اور اس کا کیا کرنا ہے یہاں کے لوگ یہ بھی جانتے ہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ اس ملک کے حالات کو خراب ہونے سے بچایا جائے اور ان کو 175اور 315کے ہندسوں سے میں نہ ڈالا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ہندسے گننے والے ہی موجود نہ رہیں ۔ کیونکہ جب لاوا پھٹتا ہے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا ۔ اور یہ لاوا پک رہا ہے اور کبھی بھی پھٹ سکتا ہے بہتر یہی ہے کہ ہر کوئی اپنی پوزیشن بہتر کرے اور اس خطہ کی عوام سے زیادتی بند کرے اور اس خطہ کی عوام کو ان کے حقوق دے ۔ اللّٰلہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔