رب کائنات نے بنی نوع انسان کی پیدائش کےساتھ ہی اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اور بہت سے اوصاف سے نوازہ مگر وہیں اس کی سرشت میں کمزوریاں بھی رکھیں۔ ساتھ ہی اسے عقل جیسی نعمت دے کر اچھے برے میں پہچان کرنے کی تمیز بھی دی تاکہ وہ اچھی خصلتوں کو اپنائے اور بری خصلتوں سے خود کو بچائے۔ ان خصلتوں کا اگر مختصراً جائزہ لیا جائے تو حسد بھی ایک ایسی ہی خصلت ہے جسکا شمار ناپسندیدہ ترین اوصاف میں کیا گیا ہے۔
وکیپیڈیا کی رو سے”دوسرے کی اچھی قسمت کی وجہ سے پہنچنے والی تکلیف کو حسد کہتے ہیں۔باالفاظ دیگر اللّٰلہ تعالیٰ کی تقسیم سے اختلاف رکھنا حسد کہلاتا ہے۔“
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ”حسد“اسے کہتے ہیں کہ کسی کو کوئی نعمت ملے اور تجھے برا معلوم ہو اور تو چاہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے۔
اسلام میں بارہا اس کی ممانعت کی گئی ہے
اور اسے انسانیت کےلئے زہر قاتل قرار دیا گیا ہے۔ زہر قاتل اس طرح ہے کہ حسد، نہ صرف حاسد کی نیکیوں کو ختم کردیتی ہے بلکہ ایک حاسد انسان دوسروں کو اکثر مال وجان کا نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اسلام نے جہاں زندگی کے ہر معاملے میں راہ حیات متعین کی ہے وہیں قران پاک میں متعدد جگہ حسد سے بھی بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔سورہ الفلق میں حسد کرنے والوں سے باقاعدہ پناہ مانگی گئی ہے۔
وَمِن
± شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدٍ (الفلق:۵)
ترجمہ ”میں اللّٰلہ سے پناہ مانگتا ہوں حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگیں۔“
اگر اس آیت کےتناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک عادت ہی نہیں بلکہ ایک ذہنی بیماری بھی ہے جو محسود کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتی جتنا حاسد کو کیونکہ اس کا براہ راست تعلق حسد کرنے والے کی سوچ سے ہوتا ہے۔ لاشعوری طور پر اس کی سوچ منفیت کی جانب پروان چڑھتی ہے اور وہ اللّٰلہ کی ذات کی شکر گذاری کرنے کے بجائے اس کی عطا کی گئی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔ بذات خود پروردگار کی ذات سے دور ہوجاتا ہے۔
ایک حدیث سے مروی ہے کہ،
”کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے۔“ (سنن نسائی:۲۹۱۲)
ایمان کی نشانی یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا ہر حال میں شکر ادا کرے اور حسد ناشکری کے زمرے میں آتا ہے۔اس لیے جب بندہ حسد کرنے لگتا ہے تو وہ براہراست رب سے جھگڑا مول لیتا ہےاور اس کی تقسیم پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ حسد کا براہ راست اثر انسان کے ایمان پر ہوتا ہے کیونکہ انسان کا ایمان اس کے تقویٰ، اخلاص و کردار پر مبنی ہوتا ہے اور حاسد میں یہ خوبیاں نہیں ہوتیں۔یہ صورت حال تب زیادہ گھنبیر ہوتی ہے جب حسد کی آگ کینہ اور بغض کے حدود پار کرکے لوگوں کے نقصان کا باعث بنتی ہے۔
“۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔
ابوداﺅد حدیث نمبر۴۹۰۳
اللّٰلہ تعالی نے انسانوں کو ایک جیسی جسمانی اور ذہنی ساخت سے نوازا۔ ساتھ ہی اس کی پیدائش اور موت کے عمل کو ایک جیسا کرکے یہ بات ثابت کردیا کہ اس کےلئے سب انسان برابر ہیں۔ اگر کسی کو کس پر فوقیت ہے تو صرف اورصرف تقوی کی بنیاد پر۔ رب العزت نے جہاں اجتماعی طور پر سب کو یکساں خصوصیات سے نوازا، وہیں انفرادی طور پر بھی کچھ لوگوں میں کوئی نہ کوئی اضافی صفت رکھی یا کمی رکھی،جیسے شکل، صورت، قد کاٹھ وغیرہ۔
کچھ لوگ رب کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بروئےکار لا کر سخت محنت اور تگ و دو کے ذریعے ترقی کے مراحل طے کرتے ہیں جبکہ کچھ ان صلاحیتوں کے ہونے کے باوجود کاہل اور سست ہوتے ہیں، خود تو کچھ نہیں کرپاتے مگر کامیاب لوگوں سے حسد ضرور کرتے ہیں۔حاسد کی یہ کیفیت جب تک اس کے دل و دماغ تک محدود رہے صرف اسی کےلئے ہی نقصان کا باعث ہوتی ہے مگر اکثر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ کیفیت حاسد کے دماغ کو پوری طرح اپنے تابع کرلیتی ہے۔ نتیجے میں اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے اور ایسی صورت میں وہ کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرتا۔جو کہ بڑے نقصان کا موجب بنتی ہے۔دنیا میں انفرادی یااجتماعی، قومی یا بین القوامی طور پرجو بھی مسائل درپیش ہیں ان کی بنیاد زیادہ تر حسد ہی ہے۔ یہ مسائل قتل، جنگ و جدل اور نسل کشی کی حدود کو پار کر چکے ہیں۔ انسانیت پر روز بروز زندگی تنگ کی جا رہی ہے۔ایسے ہی لوگوں کےلئے سورہ النساءمیں اللّٰلہ فرماتے ہیں۔
ترجمہ۔”کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللّٰلہ نے ان کواپنے فضل سے عطا کیا ہے۔“
اگر اس کو اسلام کے تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ابلیس صرف اور صرف حسد کی وجہ سے رب کے فرمان سے روگردانی کرکے شیطان مردود قرار پایا۔ اللّٰلہ تعالی فرماتے ہیں
ترجمہ”کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیاہے اور اس کو مٹی سے تخلیق کیا ہے۔“
ابلیس کا یہی حسد کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں،میں ایک مٹی کے پتلے کو سجدہ کیوں کروں؟ تکبر کی کبھی مصر کے بازار میں اس کا سودا کیا۔ اسکے علاوہ حسد نے جہاں ایک طرف ہابیل کے ہاتھوں قابیل کو قتل کروایا تو دوسری جانب نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو بھڑکتی آگ میں پھینکوایا۔ حسد فرعون نے موسیٰ علیہ صورت میں ابھرا اور ہزاروں سال اللّٰلہ کی عبادت کرنے والے ابلیس کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ملعون کردیا۔ ساتھ ہی اپنی اس حسد کے زیر اثر اس نے نہ صرف آدم علیہ السلام کو شجر ممنوعہ کی جانب راغب کرکے جنت بدر کروایا بلکہ تاقیامت بنی نوع انسان کو اللّٰلہ کی راہ سے بھٹکانے اور آپس میں دست و گریباں کرنے کا ٹھیکہ بھی لیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہے کہ حسد ابلیس مردود کی جاگیر ہے۔اسی حوالے سے بنی آدم کا سب سے بڑا حاسد شیطان ہے اس لیے اللّٰلہ اور اس کے رسول کو حسد سخت ناپسند ہے۔
بنی نوع انسان کی تاریخ حسد اور اس کی تباہ کن اثرات سے بھری پڑی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے بیٹوں کی اپنے بھا?ی یوسف علیہ السلام سے حسد کی مثال تا قیامت یاد رکھی جائے گی کہ کس طرح انہوں نے اپنے بھا?ی یوسف علیہ سلام سے حسد کی بنا پرمتعدد بار اسے تکالیف سے دوچار کیا۔ کبھی کنویں میں ڈالا تو سلام سے کیا تو اہل قریش نے نبی آخرالزمان محمد مصطفی ﷺ سے کیا اور یزید نے نواسہ رسول حضرت امام حسین ؓ سے کیا۔ یہود و نصاریٰ کا اسلام اور اہل اِسلام سےچودہ سو سال پہلے شروع ہونے والا حسد اہل اسلام کو تباہی کے بدترین دہانے پر لاچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قران پاک میں حسد کرنے والے سے پناہ مانگی گئی ہے۔اس لیے ہم سب کو بھی اس زہر قاتل سے اپنے ایمان کو بچانے کےلئے پوری کوشش کرنی چاہیے۔