اس وقت پاکستانی سیاسی صورت حال کے حوالے سے معروضی طور پر یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تین بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی تاحال زیادہ موثر ہیں، دیگر سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی اہم سیاسی کردار کی حامل ہیں،مگر اُن کا سیاسی کردار پریشر گروپ کے طور پر بڑے فیصلوں کا محرک تو بن سکتا ہے ،لیکن خود مضبوط کن نہیں ہے۔ اس صورت حال میںسیاسی توازن بگڑا ہے، کیونکہ دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) او رپاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت احتسابی عمل کی وجہ سے بہت زیادہ سیاسیمی اور اعصابی دباومیں ہیں،اس لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) اپوزیشن کی سیاست نہیں کر رہی ، بلکہ اپنے دفاع کی سیاست کر رہی ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاست کا مقابلہ سیاست سے کیا جاتا ہے، انتقامی اقدامات سے نہیں، بلکہ انتقامی اقدامات تو اپوزیشن کو نئی زندگی دیتے ہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن انتقامی سیاست کے بعد زورشور سے جمہوریت بچانے اور ووٹ کو عزت دو کا علم بلند کرتی ہے ،مگر پھر نظریہ ضرورت آڑے آجاتا ہے اور اس دفعہ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ( ن )کے لیڈران منہ میں زبان رکھتے ہوئے بھی قوت گویائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بیرون ملک چلے جانے کے بعد میاں برادران نے اپنے ساتھیوں کو بولنے سے منع کر رکھا ہے یا ان کےساتھیوںنے کسی مجبوری کی وجہ سے بولنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں نے اہم ملکی سلامتی کے معاملات پر اپنا کردارہمیشہ ذمے داری سے نبھایا ہے،آرمی ایکٹ میں حالیہ ترمیم کے موقع پر بھی اپوزیشن نے تقریباً یک زبان ہو کر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے بالغ نظری کا ثبوت دیا ،اس پر اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے ووٹران شاکی ہیں، لیکن کچھ ملکی معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر حکومت اور اپوزیشن کو نہ چاہتے ہوئے بھی متفق ہونا پڑتا ہے،دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو ذاتی مفاد کے پیش نظر مفاہمتی گلے میں ڈالے ڈھول کو بجانا پرے گا۔میاں نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا واضح اور دوٹوک موقف ابھی عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہواتھا کہ انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے پا
¶ں پر کلہاڑی مار لی ہے،اگر انہوں نے خود کو بچانے کےلئے حکومتی حما یت ہی کرنا تھی تو پھر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے سے پہلے ہی عزت بچا لینی چاہیے تھی۔میاں بردران کی ڈبل پا لیسی کا نتیجہ ہے کہ آج ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے اپنی پارٹی کے رہنما کترا رہے ہیں،میاں نواز شریف کی جاریحانہ اور میاں شہباز شریف کی مفاہمتی پا لیسی کا پول کھل چکا ہے ،مگرعوام آزمائے ہوں کو بار بار آزمانے کی عادت سے مجبور جانثاری سے باز نہیں آئیں گے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک عوام کو حقیقی معنی میں انتخاب کا حق نہیں دیا گیا ،مگر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کیا وہ درست انتخاب کرنے کی صلا حیت رکھتے ہیں ۔عوام تو ذات برادری اور چھوٹے چھوٹے مفادات کی زنجیروں میں جکڑے ہو ئے ہیں ،اسی وجہ سے جا نتے بوجھتے قومی لٹیروں کےلئے ایک دوسرے سے دست گرباں ہیں ۔ملک کی سیاسی پارٹیوں نے عوام کو اتحاد کی لڑی میں پرونے کی بجائے مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے ،یہ گروہوں میں بکھرے لوگ مختلف سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے اُٹھائے اپنے مستقبل سے بے نیازجیوئے جیوئے اور آوئے آوئے کے نعرے لگانے کے نشہ کے عادی ہو چکے ہیںاور شخصیات پرستی کی دلدل سے کسی صورت نکلنے کےلئے تیار نہیں ،قومی لٹیروں کی باقیات کی غلامی بھی عزیز ہے ،یہ غلامانہ طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ جمہوری حکومت میں بھی
جمہوریت بچاﺅ اور ووٹ کو عزت دو جیسے مفادانہ نعروں کے پیچھے چلے جارہے ہیں۔عوام کے سامنے پہلے احتساب میں گرفتاریاں اور ابعدازاں ضمانت ہونے پر بیرون ملک اُڑان بھری جارہی ہے ،پہلے میاں برادران خرابی صحت کا بہانہ کرکے چلے گئے ،اب تیمارداری کےلئے مریم بھی چلی جائیں گی ۔حکومت لاکھ نہ جانے دینے کے دعوئے کرے ،ڈیل اور ڈھیل نہ کرنے کا یقین دلائے ،مگرجنہوں نے میاں برادران کو بھیجا ،وہ مریم نواز کو بھی اُڑان بھرنے کی اجازت دے دیں گے۔
پاکستانی عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ اسے اب تک جتنے بھی حکمران اور سیاست دان عوا م پر مسلط رہے ہیں،ہمیشہ سب نے جمہوریت کی تعریف اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر کی ہے ،انہوں نے نہ صرف جمہوریت کو اپنے ذاتی ، مفاداتی طبقے تک تقسیم کیا ،بلکہ اس کے ثمرات کو بھی اپنے مفادات تک محدود رکھا ہے ۔یہ عوام کے نام پر عوام کی مخالف قوتوں کے مسلط کردہ لوگ ہیں،انہوں نے ہمیشہ عام انتخابات میں سرمایہ کاری کی اور نام نہادجمہوریت کو اپنی انویسمنٹ سے خریدا ہے،اسی لیے آج کل ہمارے سیاست دان اور حکمران، جمہوریت کو اپنے مفادات کےلئے جس طرح استعمال کررہے ہیں، اسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ا سی وجہ سے ہمارے مُلک کا غریب جمہور ،جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم ہے۔عوام نے عرصہ دراز بار بار آزمائے ہوں کو آزمانے کے بعد بڑی مشکل سے نئی قیادت کا انتخاب کیا تھا ،انہوں نے میاں نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو اورآصف علی زرداری کے اینٹ سے اینٹ بجانے کے دعوے سے تنگ آکر عمران خان کو منتخب کیاتھا، مگر ملکی معاشی حالات اور مہنگائی کے سونامی نے لوگوں کو لنگر خانوں اور پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ستم ظریفی کی حد ہے کہ تبدیلی کے دعوئیدارہی دنیا کی بجائے قبر میں سکون لینے کی باتیں کرنے لگے ہیں ،ایک سا ل سے زیادہ عرصہ اقتدار میں گزرنے کے بعد بھی حکومت عوام کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے مستقبل میں خوشحالی کے سنہرے خواب دیکھارہی ہے ۔عوام کی مایوسی کےساتھ اتحادی جماعتیں جہاں حکومت سے نالاں ہیں ،وہاں بلاول بھٹو زرداری ببانگ دہل حکومت گرانے پر وزارتوں کی آفریں کروارہے ہیں ۔آرمی ایکٹ کی منظوری پرقائم ہونے والا مفاہمتی سیاسی عمل بظاہربکھرنے لگاہے ، سیاسی حسینائیں مفادات کے حصول میں روٹھنے لگی ہیں ،جنہیں منانے کےلئے پس پردہ سیاسی مشاورتیں جاری ہیں ۔غریب عوام بیچارے بھی ملک کے آقاو
¿ں کو اشارے کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ایسی تبدیلی سے ہماری توبہ ،جس کے باعث تنگ دستی کی انتہا میں سانس لینا مشکل ہو جائے ،عوامی مسائل کے تدارک کی بجائے لندن والی میاں نواز شریف کی تصویر زیر بحث ہے ،کوئی عوام کا پر سان حال نہیںہے ، کیاعوام کا انتظار قومی لٹیروں کے اُڑان بھرنے یا خودقبر میں جانے کے بعدہی ختم ہو گا ؟