صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 31 اکتوبر 2025 

وراثت میں تفریق کیسی

محمد ابو بکر جمیل | پیر 13 جنوری 2020 

اللّٰلہ تعالیٰ نے انسان کو پیداکیا اور پھر مختلف رنگوں، نسلوں، زبانوں اور امیر غریب جیسے گروہوں میں تقسیم کردیا،لیکن اس تقسیم کی وجہ جو بیان فرمائی وہ یہ ہے "وجعلنکم شعوبا وقبائل لتعارفوا"(القرآن) کہ ہم نے تمہارے جو مختلف قبائل اور دنیوی درجات بنائے ان کا مقصد یہ ہےکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو یعنی بوقتِ تعارف یہ رنگ و نسل تمہیں مدد فراہم کریں،،تو معلوم ہوا انسان میں لسانی تفریق اور امیر غریب کے درجات کو اللّٰلہ نے ایک خاص مقصد کیلئے بنایا ہے..

اور اس کے بعد متصل جو حقیقی فیصلہ سنایا جو کہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے وہ ہے "انّ اکرمکم عند اللّٰلہ اتقکم" کہ اصل میں اللّٰلہ کے دربار میں عزت، عظمت اور بلندیوں کے استحقاق کا معیار تقویٰ ہے،جو شخص تقوی کے جتنے بلند درجہ پر ہو گا تو قربِ الٰہی کا بھی ا±تنا ہی مستحق ہو گا۔
اب تقوی کو چھوڑ کر لوگوں کی مالی حیثیت یا لسانی تفریق کی بناء پر لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنا جہاں اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے وہاں اللّٰلہ کے تخلیقی مقصد کو تبدیل کرنا بھی ہے..خصوصاً علماءکیلئے جو کہ انبیاء کے وارث ہیں، جن کا مرتبہ بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر قرار دیا گیا اگر ایسی پاکیزہ جماعت بھی عوام الناس کے ساتھ انکی مالی حیثیت کے مطابق معاملہ کرے اور اگر یہ مقدس گروہ بھی اپنے متبعین کے رنگ، نسل، زبان اور دنیوی مراتب کے تفاوت کو دیکھ کر اس مرتبے کے مطابق ان کو حیثیت دے تو ہم کس سے التجاءکریں..؟؟ کس کے سامنے فریاد کریں..؟ ؟ارے آپ تو ہمارے لئے ہمارے نبی کے بعد مقتداء اور پیشوا ہیں، یہ سوچ کر کہ آپ وارث کس ہستی کے ہیں اسی وراثت کی لاج رکھ لی ہوتی۔جبکہ سرکار دوعالم تو دعا فرما رہے ہیں کہ یا اللّٰلہ میرا حشر بروزِ قیامت مساکین کے ساتھ فرما،اللّٰلہ اکبر.....!
تو پھر کیوں ان مساکین سے کنارہ کشی اختیار کی جاتی ہے....؟
دوسری طرف ایک مرتبہ محبوب دو عالم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے بالکل صدق نیت کے ساتھ ایک مخلص، نابینا صحابی کی طرف اپنی توجہ کو مو¿خر صرف اس بنائ پر کی کہ یہ تو ماشائ اللّٰلہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہیں تو میں مکہ مکرمہ کے سرداروں کو دعوتِ اسلام دے دوں شاید ان کے قلوب اس طرف مائل ہو جائیں، تو فورا رب ذوالجلال نے "سور? عبس" کی ابتدائی آیات نازل فرما کر پیار بھرے انداز میں مطلع کرتے ہوئے فرمایا "میرے محبوب آپ ان مخلصین کو چھوڑ کر ان کفار کی طرف متوجہ نہ ہوا کیجئے، جن کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اسلام بھی لاتے ہیں یا نہیں" 
سو اے جماعتِ وارثینِ انبیاءآپ ایسی رحمتِ دوعالم ذات کے پیروکار ہیں.. آپ حضرات نے ہی تو امت کو درسِ مساوات دینا تھا اگر آپ کی جانب سے تفریق کا یہ تاثر آئے گا تو کیسے اسلامی معاشرہ درست سمت کی طرف گامزن ہو پائے گا.. اور کیسے ہم ایک اجتماعی مثالی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر پائیں گے،،لھذا بڑی لجاجت کے ساتھ عرض ہے خدارا کچھ سوچئے.. امیر، غریب، عہدے، حیثیت اور مادی اسباب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف امت کے پیشوا بن کر لوگوں کے ساتھ معاملہ کیجئے..! ایک روحانی باپ بن کر بلا تفریق ہر ایک کو حیثیت دیجئے، پھر اس کے ثمرات آپ کھلی آنکھوں دیکھیں گے.. کیونکہ آپ لوگوں کو خیر دیں گے تو بدلے میں دوگنا خیر آپ کا مقدّر بنےگی۔انشاءاللّٰلہ..اور آخر میں پھر سے کہتا ہوں میری کوئی حیثیت اور وقعت نہیں کہ میں آپ کی اصلاح کے دعوے کروں،، میں دل سے آپ کی عظمت کا قائل ہوں.. اور الحمدللہ اکثریت ہر مسلک کے علماءکی باکردار اور قابل رشک لوگوں پر مشتمل ہے لیکن ہر شعبے میں بحیثیت انسان کمزوریاں یقیناً ہوتی ہیں.. اور آپ چونکہ مقتداءِ امت ہیں آپ کی کمزوریوں کا اثر صرف آپ تک محدود نہیں ہو گا بلکہ امت میں منتقل ہو گا تو اس بناء پر یہ دردِ دل سامنے رکھ دیا! کیونکہ ہم آپ سے ہیں اور آپ ہم سے.. اصلاح کی نیت سے یہ باہمی تعاون انشاءاللّٰلہ ایک پ±رامن، منظّم، اور قابل رشک معاشرے کو تشکیل دینے کا سبب بنے گا انشاءاللّٰلہ...! 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔