صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعہ 31 اکتوبر 2025 

ہڑپہ میں جو ہم نے دیکھا

زاہد مقبول | پیر 13 جنوری 2020 

 ہڑپہ کے کھنڈرات ساہیوال سے 25 کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ ہڑپہ کو ہڑپہ کیوں کہا جاتا ہے اس کے بارے میں دو اہم روایات ہیں۔ اول ایک قدیم کتاب ”رگ وید“ کے حوالے سے اس کا قدیم نام ”ہری بوپا“ یا ''ہری یوپیہ'' تھا جو بعد میں ہڑپہ بن گیا۔ دوم، بعض ماہرین کی رائے ہے کہ ہڑپہ پنجابی زبان کے لفظ ہڑپ سے نکلا ہے جس کے معنی کھا جانے یا نگل جانے کے ہیں۔ جب اس قدیم شہر پر تباہی آئی تو مقامی لوگوں نے اسے ہڑپ کہنا شروع کر دیا جو بعد میں ہڑپہ کہلانے لگا۔

 اس تہذیبی مرکز کے کھنڈرات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر بہت سی قدرتی اور انسانی آفتوں نیز دریائے راوی کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود کسی نہ کسی طور سے اب تک آباد چلا آ رہا ہے۔

جنوبی ایشیاءمیں ہڑپہ سب سے پہلا دریافت شدہ تہذیبی آثار ہے جو 1856ءمیں اتفاقاً اور ڈرامائی طور پر دریافت ہوا, جب لاہور اور ملتان کے درمیان ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی۔ کچھ عرصہ تک تو یہ کھنڈرات ان ٹھیکیداروں کےلئے اینٹوں کی ایک کان بنے رہے جو ریلوے لائن بچھانے پر مامور تھے۔ انہی اینٹوں سے ساہیوال سے خانیوال تک ریل کی پٹڑی اور چھوٹے بڑے اسٹیشن تعمیر کئے گئے۔

ہڑپہ کے ملبے سے قدیم تہذیب کی مہریں اور دیگر آثار برآمد ہوئے جنہیں مشہور ماہر آثار قدیمہ جنرل ایگزینڈر کنگھم نے بڑی تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ جنرل کنگھم کی مداخلت پر ہی یہاں سے اینٹوں کی کھدائی رکوائی گئی لیکن اس وقت تک تقریباً آدھے کھنڈرات تباہ ہو چکے تھے۔ ہڑپہ کے موجودہ دریافت شدہ کھنڈرات کا رقبہ 125 ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے۔

 ہڑپہ میں آثار قدیمہ کی باقاعدہ کھدائی 1921ءمیں شروع ہوئی تو بہت جلد جنوبی ایشیاءکی یہ پہلی تہذیب دنیا بھر کے ماہرین آثار قدیمہ اور دانشوروں کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بن گئی۔ ہڑپہ شہر کے شمال مغربی حصے میں دریائے راوی کی قدیم گزر گاہ کے کنارے ہڑپہ کی سب سے اہم عمارت ”عظیم اناج گھر یا غلہ گودام“ کے آثار ہیں۔ یہ غلہ گودام 40 میٹر لمبے اور 35 میٹر چوڑے چبوترے پر بنایا گیا تھا گودام میں چھ چھ کی دو قطاروں میں بارہ کوٹھیاں یا ہال تھے۔ یہ کوٹھیاں چار فٹ اونچے چبوترے پر بنائی گئی تھیں۔ ہر کوٹھی دراصل ایک طویل ہال تھا جس کا فرش لکڑی سے بنایا گیا تھا تاکہ اناج کو نمی سے بچایا جا سکے۔ ہال روشن اور ہوا دار بنائے گئے تھے گودام کی وسیع و عریض عمارت کے دو حصے تھے جن کے درمیان 23 فٹ چوڑی سڑک تھی۔

ہڑپہ کے آثار میں اہم ترین اشیاءمہریں ہیں۔ انہی مہروں سے ماہرین ہڑپہ کے آثار کی قدامت اور تاریخ کا اندازہ لگایا ہے اکثر مہروں پر تحریروں کےساتھ کسی جانور کی شکل بنائی گئی ہے جن میں ہاتھی، گینڈے، مگرمچھ، بیل اور شیر کی اشکال اہم ہیں مہروں کی تحریر ابھی تک پڑھی نہیں جا سکی۔ زیادہ تر مہریں پتھر سے بنائی گئی ہیں۔ بچوں کے کھلونے جو مٹی سے بنے ہوئے ہیں ان کی عام اشکال انسانوں اور جانوروں سے مشابہہ ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ خوشحال اور کھیلوں کے شوقین تھے بچوں کے کھلونوں میں مختلف حیوانات، پرندے اور بیل گاڑیاں شامل ہیں۔ ہڑپہ سے مٹی کے برتنوں کی کثیر تعداد دریافت ہوئی ہے وہ لوگ مٹی سے ہر طرح کے برتن بنانے میں بڑے ماہر تھے اناج ذخیرہ کرنے کےلئے بڑے مٹکوں سے لے کر روز مرہ کے استعمال کے برتنوں تک وہ ہر قسم کے برتن کمہار کے چاک پر بنا لیتے تھے۔ برتنوں پر سرخ رنگ کیا جاتا تھا اور سیاہ رنگ کے بیل بوٹے بھی بنائے جاتے تھے۔

ہڑپہ کی قبروں سے مردوں کےساتھ بڑی تعداد میں دفن کئے گئے برتن بھی ملے ہیں مردوں کو باقاعدہ برتنوں اور ذاتی اشیاءکےساتھ دفن کیا جاتا تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ حیات بعدازموت پر یقین رکھتے تھے۔ ہڑپہ میں تقریباً سو سے زیادہ جزوی تدفین کے آثار برآمد ہوئے ہیں یعنی مرنے کے بعد مردوں کو چرند پرند کی خوراک بننے کےلئے چھوڑ دیا جاتا تھا اور جب محض ڈھانچہ باقی رہ جاتا تھا تو اس ڈھانچے کی تدفین کر دی جاتی تھی۔ 1987سے اب تک امریکی ماہرین آثار قدیمہ پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے تعاون سے ہڑپہ شہر کے جنوبی حصے میں نئی کھدائی میں مصروف ہیں جس کی بدولت اب تک بے شمار اہم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ان میں مکانات، سڑکیں، بھٹیاں اور کارخانے وغیرہ شامل ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہڑپہ تین بار تباہ ہوا کیونکہ زمین کے نیچے سے جو مکان برآمد ہوئے ہیں وہ ایک ہی بنیاد پر تین مرتبہ تعمیر ہوئے تھے۔ ان مکانات کے صحن بڑے کشادہ اور بڑے سلیقے سے بنائے گئے تھے پانی کے نکاس کا انتظام بھی مناسب تھا۔ زمین کے نیچے سے جو اشیاءیا کتبے برآمد ہوئے ہیں ان پر ایسی زبان لکھی ہے جسے آج تک کوئی نہیں پڑھ سکا اس لیے ہڑپہ کی کوئی ایسی تاریخ نہیں لکھی جا سکی جس پر اعتبار کیا جا سکے۔کاروبار، سائنس، طرزِ تعمیر، اور بلند ترین شہری زندگی کی تمام خصوصیات رکھنے والی یہ تہذیب فنون لطیفہ میں بھی اپنی مثال آپ تھی۔(پروفیسر ذیشان رشید)

اسی کھنڈر میں مرے خواب کی گلی بھی تھی.گلی میں پیڑ بھی تھا پیڑ پر ثمر بھی تھا (یوسف حسن)ہڑپائی تہذیب (جس کو وادی سندھ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے) کے مرکزی قدیم اور تباہ شدہ شہر ہڑپہ کا اگرچہ اس سے پہلے بھی دورہ کر رکھا تھا مگر اس وزٹ نے اپنے اپنے میدان کی کئی منجھی ہوئی شخصیات کے ہمراہ ماضی کے خرابوں میں ایک کہکشاں بھر دی۔ ذیشان رشید صاحب نے انتھک محنت سے ہم خیال لوگوں کو ایک لڑی میں پرویا، عبدالغفار صاحب کے آثری و تہذیبی علم نے کافی در وا کئے،ڈاکٹر کاشف علی سیاحت میں آپنا نام رکھتے ہیں, ایم بلال ایم صاحب کو دو محاذوں پر تگ و دو کرتے دیکھا کہ ''تصویر گردی اور ویڈیو گردی'' انہوں نے ہی کرنی تھی اور خوب کی، ڈاکٹر شاہد رسول,خالد حسین بوریوالا سے اس وزٹ میں ان سے ملنا میری خوش قسمتی تھی,اسکے علاوہ حافظ حسن,طیب چیمہ,عباس بھیا,حسن عسکری,عدنان صاحب دیگر نے آپنے آپنے انداز میں اس سفر کو چار چاند لگا دیے..دنیا بہت بڑی ہے، اربوں کی آبادی ہے، سینکڑوں تہذیبیں جدلیات کے عین اصولوں کے مطابق معرضِ وجود میں آئیں اور تدریجی مراحل سے گزر کے مدفون بھی ہو گئیں ہٹرپائی ایک شہری تہذیب تھی جس کے کئی ایک بڑے شہر مثلاً موہنجوڈارو، لوتھل، گنویریوالا، ڈھولی ویرا تھے اور ان کا سرخیل تھا ہڑپہ شہر جس کی وجہ سے دنیا ہڑپائی تہذیب سے روشناس ہوئی، اس شہر سے ایک بار پھر ملنا بہت علم و حظ دے گیا، اب پہلے کی نسبت سہولیات بہت بہتر ہے.جس میں یقناً عجائب گھر کے منتظم محمد حسن کا کردار بہت اہم ہے، ایک مزید سائٹ (بڑے آدمی کا گھر) کو مکمل کھدائیاں کر کے اور محفوظ کر کے زائرین کےلئے کھولا جا چکا ہے۔ قدیم ہڑپہ شہر سے جو ثقافتی مادی باقی جات ملے ہیں ان کو کھنڈرات سے متصل چھوٹے سے عجائب گھر میں بڑے قرینے سے رکھا گیا ہے.ہمیں چاہیے خود اور نسل نو کو آپنی تہذیب بارے آشنا کریں..

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔