حضرت عبد اللّٰلہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاو¿ فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاو¿ قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاو¿ کیونکہ میں انسان ہوں جو اٹھالیا جاو¿ں گا اور علم (بھی) عنقریب اٹھ جایے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے (جن کی وجہ سے شریعت اسلامیہ سے ناواقفیت ہو جائیگی)حتی کہ دو شخصوں میں اختلاف ہوگا تو ان کو کوئی نہ ملے گا جو (احکام شریعت کے مطابق) ان کے درمیان فیصلہ کردے ۔
کثیر بن قیس فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ اپنے والد حضرت ابوالدرداءؓ کے ساتھ دمشق کی جامع مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابولدرداءؓ میں آپ کے پاس حضورﷺ کے شہر مدینہ طیبہ سے حاضر ہوا ہوں صرف ایک ایسی حدیث کے حاصل کرنے کیلئے جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسے آپ براہ راست حضور اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں اور میں کسی ضرورت (دنیوی) کی وجہ سے نہیں آیا۔ حضرت ابوالدرداءنے فرمایا کہ بیشک میں نے حضور اکرم ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص علم کے حصول کی راہ میں چلا اللّٰلہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلاتے ہیں اور بیشک ملائکہ اپنے پروں کو طالب علم کی خوشنودی کے لئے بچھاتے ہیں اور عالم کے لئے زمین و آسمان کی تمام اشیاءمغفرت کی دعا کرتی ہیں اور مچھلیاں پانی کے پیٹ میںاور بیشک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں کے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر اور بیشک علماءانبیاءکے ورثاءہیں اور انبیاءعلم کو میراث بناتے ہیں پس جس نے اسے حاصل کر لیا تو اس نے پورا حصہ حاصل کر لیا۔
اس حدیث کئی باتیں معلوم ہوتی ہیںپہلی بات:علم دین سیکھنے کے لیے سفر کرنا ہے کہ اس آدمی نے صرف ایک حدیث سُننے کے لیے مدینی منورہ سے رخت سفر باندھ کر دمشق پہنچااورعلم کے لیے رخت سفر باندھنے کے بہت فضائل بھی احادیث میں آئے ہیں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺنے فرمایا کہ کوئی آدمی ایسا نہیں ہے کہ وہ علم کے حصول کے لیے اللّٰلہ کے راستہ میں چلے مگر یہ کہ اللّٰلہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے واسطے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اور جس نے عمل میں کاہلی و تاخیر کی تو اس کا نسب اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔
دوسری بات اس حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ جو آدمی علم حاصل کرتا ہے تو باری تعالیٰ کا نورانی مخلوق اس کے اعزاز کے لیے اسے اپنے پر بچھاتے ہیں۔مشکوٰة شریف میں اسی فضیلت علم والی حدیث پر محشی نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ کسی طالب نے جب یہ حدیث سنی کہ طالب کے اعزاز کے لیے فرشتے اسے اپنے پر بچھاتے ہیں،تو اس نے کھیل دار بوٹ پہن لیے اور راستے پر پاو¿ں کو زور سے رکھا کرتا تھا اور ساتھ یہ بھی کہتا تھا کہ کہاں ہے فرشتوں کے پر؟اگر ہے تو میں ان کے پروں کو زخمی کر دوں گا،اس طالب علم نے دو قدم نہیں لیے کہ ان کے پاو¿ں شل ہو گئے۔
تیسری بات اس حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ زمیں وآسمان کی تمام مخلوق اس طالب علم کے لئے دعائے مغفرت کرتی رہتی ہے،تری اور خشکی کے سارے مخلوقات اس ابن آدم کو دعا میں یاد رکھتی ہے۔
چوتھی بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ عابد پر عالم کی فضیلت زیادہ ہے ایک حدیث شریف میں ہے کہ عابد کی پوری رات کی عبادت سے عالم کی نیند بہتر ہے اور مذکورہ بالا حدیث میں تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بیشک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں کے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پراور یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ روشنی کے اعتبار سے عام چاند کی فضیلت ہے ستاروں پر تو چودھویں کی چاند کو تو بطریق اولیٰ فضیلت حاصل ہوگا۔
پانچویں بات اس حدیث شریف سے یہ معلوم ہوئی کہ علمائے کرام انبیائے کرام کے وارث ہیں،اور نبیاءتو درہم ودنانیر نہیں چھوڑتے مگر صرف علم ہی کو چھوڑتے ہیں،تو یہ علمائے کرام انبیاءکے ورثاءہیں۔
عبداللّٰلہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لئے لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضورﷺ کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضور اکرم ﷺ بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے ، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے ) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ حضور اکرم ﷺ سے کیا، حضور نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔
ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کمزور و غریب مہاجرین کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا اور (ان کی فقر و غربت کا یہ عالم تھا) ان میں سے کچھ لوگ دوسرے لوگوں سے بسبب برہنہ ہونے کے پردہ کر رہے تھے اور ایک قاری قرآن کی تلاوت ہم پر کر رہا تھا کہ اچانک حضور اکرم ﷺ تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہو گئے تو وہ قاری خاموش ہو گئے نبی ﷺ نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا کہ تم لوگ کیا کر رہے تھے ؟ ہم نے کہا کہ یا رسول اللّٰلہ ﷺ بیشک وہ شخص ہمارا قاری ہے اور ہم پر قرآن کی تلاوت کر رہا تھا اور ہم اللّٰلہ کی کتاب سن رہے تھے ۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمام تعریفیں اللّٰلہ کے لئے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ بنائے کہ جن کے ساتھ مجھے صبر کرنے کا حکم دیا گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضور اکرم ﷺ ہمارے درمیان میں بیٹھ گئے تاکہ آپ ﷺ اپنے آپ کو برابر رکھیں، ہمارے درمیان ہر طرف سے (کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھ سے دور ہیں) اس کے بعد آپ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا اس طرح (حلقے بنا کر بیٹھنے کا) چنانچہ سب لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اس طرح کہ سب کے چہرے آپ کے سامنے آگئے ۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضورنے ان میں سے میرے علاوہ کسی کو نہ پہچانا پھر رسول اللّٰلہ ﷺ نے فرمایا کہ اے فقراءمہاجرین کی جماعت! تمہیں قیامت کے دن ایک کامل نور کی بشارت ہو، تم لوگ مالداروں سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہو گے اور وہ آدھا دن پانچ سو سال کا ہوگا۔
ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰلہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ میں سورہا تھا (خواب میں) مجھے ایک پیالہ دودھ کا دیا گیا، تو میں نے پی لیا، یہاں تک کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ سیری (کے سبب سے رطوبت) میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے ، پھر میں نے اپنا بچا ہوا عمر بن خطاب ؓ کو دے دیا، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰلہ ﷺآپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ نے فرمایا کہ علم۔
حضرت عبداللّٰلہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰلہ ﷺ نے فرمایا اللّٰلہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں (کے دلوں) سے کھینچ لے بلکہ علماءکے اٹھ جانے (یعنی وفات) سے علم اٹھ جائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ۔ چنانچہ ان سے (مسائل) پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ اللّٰلہ تعالیٰ ہمیں صحیح علم عطاءفرمائے(آمین)