صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
جمعرات 28 مارچ 2024 

کراچی کس کے ہاتھ تباہ ۔

محمود مولوی ۔ | بدھ 21 اگست 2019 

کراچی کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کی کچھ سیاسی جماعتیں کراچی کی اہمیت سے فائدہ تو اٹھانا چاہتی ہیں مگر اس کی خدمت کرکے اسے دنیا کے اچھے شہروں میں تبدیل کرنے کی شاید کسی کو دلچسپی نہیں ہے،تحریک انصاف اس وقت مرکز میں حکومت بناکر بیٹھی ہے جبکہ کراچی میں بھی اسے واضح برتری حاصل ہوئی ہے چونکہ تحریک انصاف کراچی کے شہریوں کے لیے ایک نئی جماعت اور ایک نئے جذبے کے طور پر سامنے آئی ہے اس لیے شہر قائد کی عوام کی توقعات کا سلسلہ اس جماعت پر ابھی قائم ہے، اور اس جماعت کی آزمائشوں کا سلسلہ ابھی شروع ہواہے ۔ مگر تحریک انصاف کی جانب سے بھی اگر سابقہ جماعتوں کی طرز کا رویہ رہاتو چار چھ مہینے میں عوام کا اس جماعت سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔ جب ہم کراچی کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہاں پر جہاں ہرشخص بنیادی مسائل کا رونا رورہاہے وہاں ہر کوئی لوٹ مار میں لگاہواہے یعنی اپنا کھاتاپورا کرلواور باقی اسے ایسے ہی تنہا چھوڑ دو یہ ایک اچھی شہریت کے جزبے کے فقدان کاواضح ثبوت ہے یہاں ایک عجیب افراتفری کا عالم ہے ۔ بجلی کا بحران ، پانی کا بحران ، آلودگی اور ناجائز تجاوزات، آخرکراچی کا انتظام چلانا اتنامشکل کیوں ہے، کیا یہ سب سیاسی پارٹیوں کی وجہ سے ممکن ہواہے یا کچھ اور بھی وجوہات ہیں۔کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کے بڑے بڑے شہر جس میں لندن،ٹوکیو،بیجنگ ،میکسیکوسٹی او ر بھارت کا ممبئی کے ہم پلہ مانا جاتاہے، ایک تاریخی حقیقت کے مطابق ان تمام بڑے دنیا کے بیشتر بڑے شہروں کا نظام کثیر اور تمام اختیارات کے حامل خود مختار ادارے چلاتے ہیں جیسے کہ سٹی آف لندن کارپوریشن یو کے، سٹی آف نیویارک امریکہ ، اور ٹوکیو میٹروپولیٹن گورنمنٹ جاپان، اس ہی طرح کراچی کا نظام کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یا بلدیہ عظمی کراچی کے پاس ہے ، جس کے سربراہ اس وقت میئر کراچی وسیم اختر ہیں، لیکن ان کے خیالات کے برعکس بلدیہ کا پورے کراچی پر اختیار ہی نہیں ہے، یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ شہر قائدکے چھ کینٹونمنٹس ہیں جن کی آبادی لاکھوں نفوس پر مشتمل ہے لیکن ان پر کے ایم سی کا کوئی اختیار نہیں ہے، اس کی جگہ کینٹونمنٹ بورڈ جو کہ کینٹونمنٹ ایکٹ 1924کے تحت بنایا گیا تھا اور اس کے ذمہ یہ کام ہیں کہ جس میں نمبر ایک زمین کا انتظام، نمبر دو بلدیاتی خدمات کی دستیابی اور نمبر تین محصولات کے ذریعے انکم جمع کرنا وغیرہ، جہاں بلدیہ کے پاس اختیار ات استعما ل کرنے کی اجازت ہے وہاں بھی اس کا دائرہ کا رمحدود کردیا گیا ہے، اور یہ سب بنیادی طورپر سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013کی وجہ سے ہے، سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت کراچی کو 209 شہری یونین کمیٹیوں کی صورت میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ 38دیہی یونین کمیٹیاں بھی ہیں جو کہ ملیر اور مغربی کراچی میں واقع ہیں ان کو کراچی ضلعی کونسل چلاتی ہے جو کہ 38ضلعی کونسلر پر قائم ہے، لیکن اس کے باوجودکراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کا کراچی ضلعی کارپوریشن پر کوئی اختیار نہیں ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ شہری علاقوں میں جہاں کے ایم سی کا اختیار ہے وہاں بھی سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ایسا نظام وضح کیا گیاہے کہ جس سے کے ایم سی کے اختیارات بہت کم رہ جاتے ہیں ، 209 شہری یونین کمیٹیز 6 ضلعی میونسپل کارپوریشن کے دائرے اختیار میں آتی ہیں ، ان ضلعی میونسپل کارپوریشنز کو یہ اہم کام سونپے گئے ہیں ، جیسا کہ صحت عامہ، تعلیم ، پانی کی فراہمی، نکاسی آب، ذبیحہ خانہ اور گلی کوچوں کا نظام وغیرہ جبکہ بنیادی طورپر یہ ضلعی میونسپل کارپوریشنز ، کراچی میونسپل کارپوریشنز کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں مگر سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ ان دونوں اداروں کے مابین تعلق کو خصوصی طورپر بیان نہیں کرتا، اس لیے ضلعی میونسپل کارپوریشنز طاقت ور اورخودمختار اداروں کی طرح کام کرتاہے جس کی وجہ سے بلدیہ عظمی کراچی کے پاس 18معمولی قسم کے اختیار ات کے علاوہ کچھ نہیں بچتا، جس میں تازہ دودھ کی فراہمی، قومی دن کے موقع پر جشن کا انتظام اور اہتمام اور غیر ملکی شخصیات کا استقبال کرنے کے ساتھ ساتھ چند کام شامل ہیں اس کے ساتھ ساتھ بلدیہ اداروں کے اختیارات میں کمی وہ غیر منتخب ادارے کرتے ہیں جو حکومت سندھ کے زیر سایہ بنائے گئے ہیں ، اور کچھ علاقوں میں ہونے والے اکثر امور پر اختیار ہے، جیسا کہ لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، اور کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی شامل ہیں ، یہ ادارے اپنے علاقوں میں گھروں کے منصوبے، کمرشل پلازہ کی تعمیر اور ترقیاتی کاموں میں تعاون کرنے کے ذمہ دار مانے جاتے ہیں ، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کنٹرول میں لیاری، ہاکس بے اسکیم 42اور شہید بے نظیر بھٹو ٹاﺅن ہے، اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اندر ملیر کے تقریبا پانچ لاکھ ایکٹر ہیں ، جبکہ کے ڈی اے میں نارتھ کراچی، سرجانی ٹاﺅن، نارتھ ناظم آباد، اور گلشن اقبال میں پچاس کے قریب اسکیمز تیار کی ہیں ، شہر کی دوسری ایجنسیز جن پر کے ایم سی کا کوئی اختیار نہیں ہے ،ان میں شامل ہیں سندھ پولیس، جن کی ذمہ داری قانون کی رکھوالی کرنا ہے وہ بھی 2011سے سندھ گورنمنٹ کے اختیار میں آتی ہے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، جس کی ذمہ داری شہر میں پانی کی دستیابی اور گندگی کو ٹھکانے لگانا ہے، سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ، جس کی ذمہ داری نکاسی اور ٹھوس گندگی کو ٹھکانے لگانا ہوتی ہے، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، جس کی ذمہ داری شہر عمارات اور تعمیرات کی منظوری ہے، سندھ بورڈآف ریونیو، جس کی ذمہ داری زمینوں کا ریکارڈ رکھنے اور ٹیکسز اور ریونیو کو دیکھنا ہے، سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی جس کی ذمہ داری منصوبہ بندی، عمل درآمد اور چلانے کی ہے، ان تما م ایجنسیز پر سندھ گورنمنٹ کا اختیار ہے ، کراچی کے ہر بڑے منصوبے میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ ایک سٹیرنگ کمیٹی بنائی جائے جس میں ہر ایجنسی کا ایک نمائند ہ شامل ہو، تاکہ اہم فیصلوں اور پیش رفت میں مل جل کر کام کیا جاسکے، افسو س کا مقام یہ ہے کہ یہ اب توہو نہیں پایا ہے بلکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس قدر گڈ مڈ ہوتی ذمہ داریوں سے اور اتنے زیادہ انتظامی اداروں کی وجہ سے ہمیشہ ایک دوسرے پر الزام لگانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور اس پورے عمل میں ہارتا صرف کراچی کا ایک عام شہر ی ہے ،جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کراچی سب کا ہے مگر کراچی کا کوئی نہیں ہے ، دنیا یہ تو جانتی ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور کاروباری شہر ہے یہاں کے لوگ بے شمار پیشوں اور کاروبار سے منسلک رہتے ہیں ،یہاں لاکھوں افرادسرکاری و غیر سرکاری اداروں میں اپنی روٹی روزی کا زریعہ لگائے بیٹھے ہیں مگر اس کے باوجود یہ تمام لوگ جن میں ایسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جو روزگار سے مکمل طورپر آزاد ہیں یعنی جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں یہ سب لوگ یہاں پانی ،بجلی اور دیگر صفائی ستھرائی کی نعمتوں کے حوالے سے یکساں ہی پریشان حال دکھائی دیتے ہیں ہر ایک ان بنیادی سہولیات سے محروم دکھائی دیتاہے ۔اور افسوس کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام شہری مسائل کو اچھال کر بعض سیاسی جماعتیں ووٹ تو لے لیتی ہیں مگر ان اداروں میں موجود کشمکش کہ میرے پاس یہ اختیار نہیں میرے پاس وہ اختیار نہیں ہے مگر ان تمام باتوں سے بھی اب کسی کو کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی ۔کراچی کی صفائی ستھرائی اور بہتری کے لیے کسی ایک مہم کی نہیں بلکہ اس کا طویل المعیاد حل نکالنا ہوگا، اس لیے میری رائے کے مطابق تمام زاتی مفادات کو بالا طاق رکھتے ہوئے کراچی کی بہتری کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آنا پڑیگا ۔آپ کی فیڈ بیک کاانتظار رہے گا۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔