صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
منگل 16 اپریل 2024 

اسلام اور امن عالم

مولانا رضوان اللّٰلہ پشاوری | جمعہ 19 اپریل 2019 

اسلام ایک سراپا امن وسلامتی کامذہب ہے،اس کی تعلیمات ،اس کا فلسفئہ زندگی اور اس کے اصول وضوابط سب کے سب ظلم وبربرےت ،انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہیں،اسلامی تاریخ وتہذیب اورتعلیم کی روشنی میں اسلام ہی درحقیقت امن کا حامل،علمبردار اور آئینہ دار ہے،مذہب اسلام امن وسلامتی کو انسانےت کی فلاح وبہبود کے لئے بنیادی ضرورت قرار دےتا ہے،اور اس کی قطعی اجازت نہیں دےتاکہ ایک انسان دوسرے انسان کے جان ومال پر حملہ کرے،اسلام نے بے جاوبے قصور کسی انسانی جان کے ضےاع وقتل کو پوری انسانےت کا قتل قراردےاہے،جبکہ کسی جان کی تحفظ وحمایت اور زندگی کے بچاو¿ کو پوری انسانیت کی حماےت اوربچاو¿ قرار دےاہے،اسلام نے ظلم وستم،قتل وغارت گری اور وحشت وحےوانےت پر نہ صرف نکیر کی بلکہ اسے قابل نفرت اور گردن زدنی جرم قرار دےا۔
قرآن پاک جس عظیم ہستی پر نازل ہوا خود اس کا فرمان ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی یعنی غےر مسلم شہری کو دکھ پہنچائے تو خود نبی ﷺ قیامت کے دن اس مسلمان کے خلاف اس غےر مسلم کی طرف سے کھڑا ہوگا۔کیا پیغمبر اسلام کے اس واضح فرمان کے بعد بھی اس پروپیگنڈہ پر ےقےن کر نے کی گنجائش رہتی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے،اسلام اور تشدد دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں،جہاں اسلام ہوگا تشددوہاں کھڑانہیں ہو سکتا،اسلام تشدد کے مقابلہ کے لئے سب سے طاقتور ہتھےار ہے،حضوراکرم ﷺ ہر روز جب تہجد کے وقت بےدار ہوتے تو فرماتے:”اے اللّٰلہ میں گوہی دےتا ہوں کہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں“دنےا کے جس خطہ میں اور جہاں جہاں مسلم اور غےرمسلم ملی جلی آبادی میں رہتے ہیں وہ عملی وسماجی زندگی میںاسی شہادت رسول کی روشنی میں ایک دوسرے کے ساتھی اوررفیق ہیں،وہ شرےعت اسلامیہ کی روسے امن وسلامتی اور اعتماد وبھروسہ کے معاہدہ میں بندھے ہوئے ہیں۔دراصل اسلام بنیادی طورپر امن وسلامتی کی دعوت دےتا ہے،جنگ پر صلح کو فوقےت دےتا ہے۔
دہشت گردی کی تعرےف:
دہشت گردی کی کوئی مسلمہ اور متفقہ تعرےف اب تک متعین نہیں کی جاسکی ہے،اور نہ ہی اس کے حدود متعین کئے جاسکے ہیں،چونکہ دہشت گردی کی اصلاح کشادہ اور وسیع المفہوم ہے،اس لئے اس کی بہت سی تاویلیں اور متعدد تعبےرےںکی جاسکتی ہیں۔ثقافتی اور نسلوں،مصالح واغراض،قوموں اور مذاہب اور عقلوں اور فکروں کے اختلاف سے دہشت گردی کے بہت سے معنی ومفہوم متعین کئے جاسکتے ہیں،تاہم عالمی سطح پر یہ اصطلاح استعمال کی جارہی ہے کہ حکومتےں اپنے سےاسی مخالفےن کے تشدد اور غم وغصہ کے اظہار کو دہشت گردی قرار دےتی ہے،اور اس کے مخالفےن حکومت کی سختی یا فوجی کاروائےوں کو سرکاری دہشت گردی کانام دےتے ہیں،گوےا حکمران طبقہ عملی طور پر اس بات پر متفق ہے کہ منتخب ےامسلمہ حکومت کے خلاف کوئی بھی تشدد،احتجاج اور مظاہرہ دہشت گری ہے۔
بہر صورت دہشت گردی کے معنی ومفہوم کی معقول اور سبھوں کے لئے قابل قبول تعےےن اور حد بندی کے حوالہ سے خاصی پیچیدگی اور دشواری پائی جاتی ہے،تاہم مولانا عبدالحمید دہشت گردی کی تعرےف کرتے ہوئے تحرےر فرماتے ہیں:”دہشت گردی صحےح معانی میں بے قصور اور معصوم افراد کو غےر استحقاقی طور پر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایسی جارحانہ کاروائی اور ظلم وستم کا نشانہ بنانے کانام ہے جس سے وہ ہراساں وخوف زدہ ہوجائےں،ایسا فرد،قوم اور تنظیم کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور ادارہ اور ملک کی طرف سے بھی،یعنی کسی فرد،جماعت،قوم یا ملک،ادارہ کا وہ عمل دہشت گردی ہے جس کا مقصد عام افراد کو عمومی طور پر اور اپنے مخالف قوت کو خصوصی طور پر دہشت میں ڈال کر اپنی غرض ومطلب کاحصول ہو۔(ماہنامہ دین مبین بھوپال)
حکومت کے ظالمانہ سلوک پر دہشت گردی کا اطلاق:
وہ حکومت جو اپنے ملک میں بسنے والے تمام طبقات کے ساتھ عدل وانصاف کا سلوک نہ کرے،بلکہ بعض طبقات کے ساتھ سےاسی ومعاشی ناانصافی روارکھے اور اس طبقے کی جان ومال کے تحفظ میں دانستہ کوتاہی سے کام لے،ےاسرکاری سطح پر ایسی تدبےرےں اور کوشش کی جائےں کہ وہ طبقہ مالی وجانی نقصان سے دوچار ہوتوایسی حکومت اور ان کے اس غےر منصفانہ اور ظالمانہ رویہ پر بھی دہشت کااطلاق ہوگا۔کیونکہ بے قصور ومعصوم افراد کو ستانا،ان کے ساتھ عدل وانصاف کا سلوک نہ کرنا،سےاسی ومعاشی ناانصافی روارکھنااور دانستہ جان ومال کے تحفظ میں کوتاہی خواہ کسی فرد کی جانب سے ہویاحکومت کی طرف سے،یہ سب دہشت گردی ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔
حکومت کے غےرمنصفانہ سلوک کے خلاف احتجاج:
اگرحکومت وقت کسی گروہ یا طبقہ کے ساتھ ناانصافی روارکھتی ہے تو اس پر احتجاج اور ردعمل کا اظہار جائز ہی نہیں بلکہ جمہوری اور انسانی حدود میں رہ کر واجب ہے،دستوروقانون کے تحت تسلیم کئے گئے جائز حقوق کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا جائز ہے،جمہوری حکومت میں اپنے جائز حقوق کے منوانے کے لئے جو طرےقے مﺅثر ہوتے ہیںان سب کااستعمال کیا جاسکتا ہے،بشرطیکہ وہ طرےقے شرعی اعتبار سے دائرہ جواز میں آتے ہوں،اور جو طرےقے سراسر غےر اسلامی ہوںان کا اختےار کرنا جائز نہیں۔یہ واضح رہے کہ مظلوم کا ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا دہشت گردی کے دائرہ میں نہیں آتا ۔
بے قصور افراد سے ظلم کا بدلہ لینا:
اگر کسی ایک طبقہ کی طرف سے ظلم وزےادتی ہو جس میں اس طبقہ کے تمام افراد شریک نہ ہوںتوظلم کرنے والے گروہ کے ان لوگوں سے بدلہ لینا جائز نہیںہے جو بے قصور ہوںاور جو خود اس ظلم میں شریک نہ ہوں،کیونکہ اسلامی شرےعت میں چاہے فرد کامعاملہ ہو یاجماعت کا مخلص مذہبی اور مسلکی وابستگی کی بنےاد پر غےر متعلق افراد کو دوسرے عمل کے لئے ذمہ دارقرار دےنا جائز نہیںہے،ایک کے عمل کے لئے دوسرے کو ذمہ دار قرار دےنا قطعاً ناانصافی اور زےادتی ہے۔
البتہ ظلم وبربرےت کے خلاف اور مظلوموں کی حماےت کے لئے ممکنہ جائز طرےقہ اپناےا جاسکتاہے،اس لئے اسلام نے جنگ کے دوران بھی بچوں،عورتوں، بوڑھوں،عبادت میں مصروف اور جنگ کے لئے غےر اہل افراد سے تعرض کرنے کے سے سختی سے روکا ہے،قرآن مجےد نے متعدد مقامات پراس طرف توجہ دلائی ہے کہ جنگ سے غےر متعلق رہنے والے افراد کو دوران جنگ کسی قسم کانقصان نہ پہنچایاجائے:”قاتلوا فی سبیل اللّٰلہ الذین یقاتلونکم“(البقرة/ ۰۹۱)پیغمبر رحمت ﷺ نے صراحتاً غےر متعلق افراد کو قتل کرنے سے منع کیا:”لاتقاتلوا شیخاً فانیاً وطفلاً صغےراً وامرا¿ةً“(ابوداو¿د،کتاب الجہاد)یعنی کمزور بوڑھے،بچوں اور عورتوںکو قتل نہ کرو۔
فقہائے اسلام تو کمزور وں،عورتوں،بچوں،بوڑھوںکو جنگ کے دوران قتل کی نیت تک کو ناجائز کہتے ہیں،عبادت گذار اور الگ تھلگ رہنے والے راہب وغےرہ کو بھی قتل سے منع کیاہے،اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہؒکی رائے امام محمدؒ نے ”السیر الکبےر“میں نقل کی ہے۔ساتھ ہی اسلام نے عام تباہ کاری کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے،آج کی مہذب دنیا میں بھی برسرجنگ دشمنوں کی ہر چےز اور غےر متعلق افراد کو بھی تباہ کاری کا نشانہ بناےاجاتاہے،لیکن اسلام اسے بدامنی اور فساد قراردےتاہے۔
اسلام تو اس حد تک امن پسند اورصلح پسند ہے کہ جنگ سے بھاگتے ہوئے لڑاکے کا تعاقب کرنے سے روکتا ہے،فتح مکہ کے موقع پر بھی آپﷺ نے اس کی خاص ہداےت فرمائی تھی،تفصےلات کے لئے ہدایة المجتہد،نیل الاوطار،جلد۸/ زادالمعاد ،جلد۳/ فتح القدےر،فتح الباری،جلد۷ کو رجوع کیا جاسکتاہے۔
دہشت گردی کے تدارک کے لئے اسلامی ہداےات:
اس حقےقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردی کے کچھ نہ کچھ بنےادی اسباب ومحرکات ہوتے ہیں،جےسے کسی گروہ کے ساتھ معاشی ےاسےاسی ناانصافی،ان اسباب کے تدارک کے لئے اسلام کیا ہداےات دےتاہے؟ہم اس کو نہاےت اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:
٭....اسلامی نظریہ کی روسے ایک انسان بحےثےت انسان شرف وتکرےم کے مقام پر کھڑا ہے،اس شرف وفضل میں مومن وکافر سب برابر ہیں،اس لئے کسی انسان کو جو اصلاً معزز ہے،ظلم وزےادتی کا نشانہ نہ بناےا جائے۔
٭....کسی بھی طبقے کے ساتھ غےر منصفانہ سلوک اور اس کی تذلیل وتحقےر نہ کی جائے،نےز کسی گروہ کے ساتھ معاشی اور سےاسی ناانصافی کو روانہ رکھا جائے۔
٭....مظلوم چاہے جس مذہب کا ہو اس کے ساتھ امتےازی سلوک برتنا تقاضائے انسانےت اور انصاف کے خلاف ہے،لہٰذا فرد ہو یا حکومت ہر اےک کے لئے عدل وانصاف اور مساوات ضروری ہے۔
٭....اسلامی حکومت کے زےر ساےہ رہنے والے غےر مسلم باشندوں کی مذہبی،معاشی،تعلیمی آزادی کے ساتھ جان ومال کے تحفظ کی یقینی ضمانت اسلام فراہم کرتا ہے۔
٭....مذہب اسلام نے انسانی زندگی کی حرمت کو اتنی اہمےت دی ہے کہ ایک شخص کے قتل کو پوری انسانےت کے قتل کے مترادف قرار دےاہے۔
٭....اگرکسی مسلمان ملک میں غےر مسلم اقلےت آباد ہو تو اسلام میں اس کی جان ومال اورعزت وآبرو کے تحفظ کا پورا لحاظ رکھا گےا ہے۔
٭....اسی طرح نجی زندگی سے متعلق معاملات میں انہیں اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔
٭....مذہب اسلام نہ صرف ظلم وتعدی سے روکتا ہے بلکہ ظلم کے جواب میں بھی دوسرے فرےق کے بارے میں حد انصاف سے متجاوز ہو جانے کوناپسند کرتا ہے۔
٭....مذہب اسلام انتقام کے لئے بھی مہذب اور عادلانہ اصول وقواعد کو مقرر کرتاہے،جو افراط وتفرےط سے پاک ہے۔
٭....مذہب اسلام غےر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہداےت دےتا ہے اور پوری انسانےت کو اللّٰلہ کا کنبہ قرار دےتا ہے۔
جان ومال،عزت وآبرو کی حفاظت اور حدود:
اگر کسی گروہ یافرد کی جان ومال اور عزت وآبرو پر حملہ ہو خواہ یہ حملہ حکومت وقت کی طرف سے ہو یا دہشت گرد اور فرقہ پرست تنظیموں اور تحرےکوں کی طرف سے،اس کے دفاع اور سد باب کے لئے اٹھ کھڑا ہونا اور اس کے انسداد کے لئے حتی المقدور کوشش کرنا امت مسلمہ کے فرض منصبی میں سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن نے سب معاملات میں تحمل وبرداشت کی تعلیم دی ہے،مگر کسی ایسے حملہ کو برداشت کرنے کی تعلیم نہیں دی جو دین اسلام کے مٹانے اوراسلام کے سوا دوسرا نظام مسلط کرنے کے لئے کیا جائے،اس نے سختی کے ساتھ حکم دےا کہ جو کوئی تمہاری انسانی حقوق چھےننے کی کوشش کرے،تم پر ظلم وستم ڈھائے،تمہاری جائز ملکےتوں سے تم کو بے دخل کرے،تمہیں اپنے دےن وایمان کے مطابق زندگی بسر کرنے سے روکے،تمہاری اجتماعی نظام کو درہم برہم کرنا چاہے تو اس وقت اس سے مقابلے میں اور ان کے سدباب میں ہر گز کمزوری نہ دکھاو¿بلکہ اپنی پوری طاقت اس کے اس ظلم کو دفع کرنے میں صرف کردو۔
”وقاتلوا فی سبیل اللّٰلہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ان اللّٰلہ لا یحب المعتدےن۔۔۔۔الآیة“(بقرہ/ ۰۹۱)اور ”ا¿ذن للذین ےقاتلون با¿نہم ظلموا وان اللّٰلہ علی نصرہم لقدےر۔الذین ا¿خرجوامن دےارہم بغےر حق الا ان ےقولوا ربنا للہ۔۔۔۔الآیة“(حج/ ۹۳،۰۴)
مولانا سےد ابوالاعلیٰ مودودی ان دونوں آےات کی روشنی میں حسب ذیل احکام کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
٭....جب مسلمانوں سے جنگ کی جائے اور ان پر ظلم وستم کیا جائے تو ان کے لئے مدافعت میں جنگ کرنا جائز ہے۔
٭....جو لوگ مسلمانوں کے گھر بار چھےنیںان کے حقوق سلب کرےں اور انہیں ان کی ملکےتوں سے بے دخل کرےںان کے ساتھ مسلمانوں کو جنگ کرنی چاہئے۔
جب مسلمانوں پر ان کے مذہبی عقائد کے باعث تشدد کیا جائے اور انہیں محض اس لئے ستاےا جائے کہ وہ مسلمان ہیںتو ان کے لئے اپنی مذہبی آزادی کی خاطر جنگ کرنا چاہئے۔
٭....دشمن غلبہ کر کے جس سرزمین سے مسلمانوں کونکال دے،ےا مسلمانوں کے اقتدار کو پامال کردے اور مٹادے اسے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے،اور جب کھبی طاقت ہو تو ان تمام مقامات سے دشمنوں کو نکال دےنا چاہئے،جہاں سے انہوں نے مسلمانوں کو نکالاہے۔(الجہاد فی الاسلام/ ۳۶)
البتہ غےر اسلامی ملکوں میں جہاں مسلمان اقلےت میں ہیں اور ان کے پاس دفاع کی طاقت نہیں ہے،وہاںاس ظلم وزےادتی کے سدباب کے لئے حتی المقدور جمہوری طرےقہ کو اپناےا جائے۔
جمہوری ممالک میں اپنے جائز حقوق کو منوانے کے لئے جو طرےقے مو¿ثر ہو سکتے ہیں ان سب کا استعمال کیا جاسکتا ہے،بشرطیکہ وہ طرےقے شرعی اعتبار سے دائرہ جواز میں آتے ہوں۔
خلاصہ تحرےر:
اس تمام تحرےر کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ اسلامی اخلاق کے خلاف یہ بات ہوگی کہ ظلم کرنے والے گروہ کے ان لوگوں سے بدلہ لیا جائے جو بے قصور ہوں اور خود اس ظلم میں شامل نہ ہو۔

 

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔