علماءمتقدمین ومتاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی ﷺ سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا صحابہ کے نومولود بچے جو آنحضرت ﷺ کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت صحابہ میں ان کا شمار ہوگا۔
صحابہ سراپا ادب اور پیکر تقویٰ تھے:
بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللّٰلہ تعالیٰ نے تقویٰ کیلئے خالص کردیا ہے ان لوگوں کیلئے مغفرت اوراجر عظیم ہے ۔(سورہ الحجرات)
قرآن کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللّٰلہ تعالیٰ عنہما کی فضیلت:
قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اللّٰلہ تعالیٰ نے رسول اللّٰلہﷺ کے صحابہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ مثلا اللّٰلہ تعالیٰ نے فرمایا: مہاجرین اور انصار میں سے قبول اسلام میں پہلے سبقت کرنے والے اور وہ لوگ جو اچھے طریقے سے ان کے پیروکار ہیں، اللّٰلہ ان سب سے راضی ہو گیا اور وہ اللّٰلہ سے راضی ہو گئے اور اللّٰلہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی۔اور آپکے گرد و نواح کے دیہاتی لوگوں میں بعض منافق ہیں اور بعض باشندگانِ مدینہ بھی، یہ لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے ، پھر وہ بڑے عذاب کی طرف پلٹائے جائیں گے۔ اور دوسرے وہ لو گ کہ (جنہوں نے) اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے انہوں نے کچھ نیک عمل اور دوسرے برے کاموں کو (غلطی سے ) ملا جلا دیا ہے ، قریب ہے کہ اﷲ ان کی توبہ قبول فرمالے ، بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے (سورة التوبة)
صحابہ کی کتنی عظیم فضیلت اور قدرومنزلت ہے کہ جس کی وضاحت اس آیت میں ہے :محمد ﷺ اللّٰلہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، وہ کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت مہربان ہیں، آپ انھیں رکوع و سجود کرتے دیکھیں گے ، وہ اللّٰلہ کا فضل اور (اس کی) رضا مندی تلاش کرتے ہیں، ان کی خصوصی پہچان ان کے چہروں پر سجدوں کا نشان ہے ، ان کی یہ صفت تورات میں ہے اور انجیل میں، ان کی صفت اس کھیتی کے مانند ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا اور وہ (پودا) موٹا ہو گیا، پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہو گیا، کسانوں کو خوش کرتا ہے ( اللّٰلہ نے یہ اس لیے کیا)تاکہ ان (صحابہ کرام)کی وجہ سے کفار کو خوب غصہ دلائے ، اللّٰلہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے ، مغفرت اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے ۔اور دوسری آیت میں ہے :البتہ تحقیق اللّٰلہ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے ، چنانچہ ان کے دلوں میں جو (خلوص) تھا، وہ اس نے جان لیا، تو اس نے ان پر طمانیت وتسکین نازل کی اور بدلے میں انھیں قریب کی فتح دی۔(سورة الفتح) دیگر متعدد قرآنی آیات ہیں ،جن میں صحابہ کرام رضی اللّٰلہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے ۔
احادیث رسول میں صحابہ کرام رضی اللّٰلہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت:
احادیث میں بھی صحابہ کے بکثرت فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ رسول اللّٰلہﷺ نے فرمایا:جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں، تو اس پر اللّٰلہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔(المعجم الکبیر للطبرانی)
ایک دوسری حدیث میں حضرت خالد بن ولیدؓ سے فرمایا: میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو اس لیے کہ تم میں سے کوئی شخص اگر اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی اللّٰلہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کردہ ایک مُدّ (تقریبا 6 سو 25 گرام) بلکہ آدھے مُدّ کے بھی برابر نہیں ہو سکتا۔(صحیح البخاری)اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللّٰلہ تعالیٰ عنہ کے وجود کو امت کے لیے حفاظت اور خیر و برکت کا باعث قرار دیا گیا ہے ۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: ایک وقت آئے گا ، کچھ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی، ان سے پوچھا جائے گا: تم میں کوئی ایسا شخص (صحابی) ہے جس نے رسول اللّٰلہﷺ کو دیکھا ہے ؟ لوگ کہں گے : ہاں، پس (اس ایک صحابی کی صلاح و فضیلت سے) ان کو فتح عطا کر دی جائے گی، پھر کچھ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی، ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی شخص (تابعی)ہے جس نے رسول اللّٰلہﷺ کے صحابی کو دیکھا ہے ؟ لوگ کہیں گے : ہاں، پس ان کو (اس تابعی کی صلاح و فضیلت سے ) فتح عطا کر دی جائے گی، پھر کچھ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرے گی، ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص (تبع تابعی) ہے جس نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے صحابی رسول کو دیکھا ہے ؟ لوگ کہیں گے : ہاں، پس ان کو(اس تبع تابعی کی صلاح و فضیلت سے )فتح عطا کر دی جائے گی۔ (صحیح البخاری) یعنی صحابہ¿ کرام کی وجہ سے تین دور خیروفضیلت کے ہوں گے ، اس بات کو صراحت کے ساتھ رسول اللّٰلہﷺ نے اس طرح ایک اور حدیث میں بیان فرمایا:میری امت کا بہترین طبقہ وہ ہے جو مجھ سے متصل ہے ، پھر وہ جو اس کے بعد اس سے متصل ہے ، پھر وہ جو اس سے متصل ہے ۔(صحیح البخاری)
سلف صالحین کاصحابہ کرام کے بارے میں م¶قف:
انہی صحیح اور صریح واضح نصوص کی بنیاد پرہی اہلِ حق نے سب سے افضل ترین شخصیات صحابہ کرام کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا ہے ۔اسی ضمن میں امام طحاوی رحمہ اللّٰلہ فرماتے ہیں:ترجمہ: اور ہم اللّٰلہ کے رسول ﷺ کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں، ان میں سے کسی کی محبت میں بھی غلو نہیں کرتے ، نہ ہی ان میں سے کسی ایک سے برائت کرتے اور نہ ہی کسی پر تبرّاءکرتے ہیںاور ہر اس شخص سے بغض رکھتے ہیں جو ان (صحابہ) سے بغض رکھتا ہے اور جوان کی برائی کرتا ہے اور ہم ہمیشہ اُن کا ذکرفقط اچھائی ، خیر و بھلائی ہی کے ساتھ کرتے ہیں ،اُن (صحابہ )سے محبت کرنا دین، ایمان اور احسان ہے ، اور ان سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے ۔
صحابہ کرام فخر واعزاز کے مستحق ہیں:
اللّٰلہ کے بندو!ان(صحابہ) کی محبت دین، ایمان اور احسان کا مجموعہ ہے : کیونکہ اس میں اللّٰلہ اور رسول ﷺ کے حکم کی تکمیل ہے اور اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے اللّٰلہ کے دین کی مدد کی، اللّٰلہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جہاد کیااور جان، مال اور خون سب کچھ قربان کردیااور زمانہ گزرنے کے باوجود بھی امت ان سے بھرپور محبت کرتی ہے ، ان کی سیرت کا مستقل اہتمام کرتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی اور جلال کی بہترین صورت، بلندی، شرف ، عالی شان مقام اور عمدہ نمونہ نکھر کر سامنے آسکے۔
صحابہ کے بارے میں ہمیشہ اچھے نظریات رکھنا لازمی ہے:
اور جو کچھ ان (صحابہ)کے درمیان ہوا اس بارے میں گفتگو سے پرہیز کرنا، اوریہ عقیدہ رکھناکہ وہ سب مجتہد ہیں اور اس میں ان کے لئے اجر ہے ، اللّٰلہ ان سے راضی ہوجائے اور انہیں بھی راضی کردے ، اور اسلام اور اہلِ اسلام کی طرف سے اتنا بہترین بدلہ دے جو وہ اپنے نیک و کار اور متقی بندوں کو دیا کرتا ہے ۔
ہرمشکل کا حل اتباع صحابہ:
آج ہم مسلمانوں کو عالمگیر سطح پر مشکلات کا سامنا ہے ہر محاذ پر ناکامی اور پسپائی ہے دشمنان اسلام متحد اوراسلام کو مٹانے پرمتفق ہیں مسلمانوں پر طرح طرح سے الزامات اور بہتان تراشی ہورہی، پوری دنیا میں اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں میڈیا سرگرم ہے یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر چل رہی ہے ہم ایک خطرناک اور نازک دور سے گذر رہے ہیں ان حالات میں صحابہ کرام کی مثالی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے ان پاکیزہ نفوس کو بھی ان حالات کا سامنا تھا بلکہ بعض اعتبار سے آج کے حالات سے زیادہ خطرناک صورتِ حال تھی مکہ میں ابتلاءو آزمائش کے شدید دور سے گذرتے تھے تعداد بھی کم تھی اور وسائل بھی نہیں، حدیبیہ میں یہودیوں اور منافقوں کی فتنہ انگیزیاں اور سازشیں تھیں، مشرکین مکہ کے حملے اور یہودی قبائل سے لڑائیاں تھیں پھر دائرہ وسیع ہوا تو قیصر روم اور کسریٰ کے خطرناک عزائم تھے ان سب حالات کا مقابلہ صحابہ کرام نے جس حکمت عملی اور صبر واستقامت سے کیا وہی تاریخ ہم کو دہرانی پڑے گی، اس لئے ضروری ہے کہ ہم سیرتِ صحابہ کا مطالعہ کریں ان کو اپنا رہنما و مقتدا جان کر اِس محبت وعقیدت سے ان کی پیروی کریں کہ ان کا ہر عمل اللّٰلہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک پسندیدہ ہے صحابہ ہمارے لئے معیار حق اور مشعل راہ ہیں ان کی شان میں کسی قسم کی گستاخی گوارہ نہیں ان کی عظمت شان کی بلندیوں تک کسی کی رسائی نہیں عصر حاضر میں ان حضرات کی پیروی گذشتہ صدیوں کے مقابلہ میں زیادہ ضروری اور اہم ہے اور کامیابی کا تصور اس کے بغیر ممکن نہیں۔
صحابہ کرام رضی اللّٰلہ تعالیٰ عنہ قابل احترام ہیں اور ان کی عزت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ انھوں نے اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ اللّٰلہ تمام صحابہ کرام رضی اللّٰلہ تعالیٰ عنہ کے درجات بلند فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے ۔ اور تمام مسلمانوں کو ان کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور جو ان کے خلاف غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں ان کو ہدایت عطا فرمائے (آمین)