قرآن کا دل اور دس بار قرآن پڑھنے کا اجر:
حضرت انس رضی اللّٰلہ عنہ سے روایت ہے فرمایا :کہ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ہرچیز کے لیے دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورة یٰسین ہے ، جس شخص نے سورة یٰسین کی تلاوت کی تو اللّٰلہ تعالی اس کے لیے دس بار قرآن پڑھنے کا ثواب لکھے گا۔ (مرقاة المفاتیح )
حاجت پوری ہو:
حضرت عطاءبن ابی رباح (جلیل القدر تابعی ) سے روایت ہے فرمایا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : جس شخص نے دن کے شروع میں سورة یٰسین پڑھی تو اس کی حاجات ( دینی دنیوی یا اخروی یا مطلقا تمام ضرورتیں) پوری کی جائیں گی۔(مرقاة المفاتیح)
گناہوں کی بخشش:
حضرت مَع±قِلِ ب±نِ یَسَار ال±مُزَنِیِّ رضی اللّٰلہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : جس شخص نے اللّٰلہ کی رضاءکے لیئے سورة یٰسین پڑھی تو اس کے پہلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ، پس اس کو اپنے مُردوں کے پاس پڑھا کرو۔(مرقاةالمفاتیح )
رات کو پڑھنے کی فضیلت :
حضرت ابی ہریرة رضی اللّٰلہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : جس نے کسی رات میں( سورة یٰسین پڑھی تو وہ اس حال میں صبح کرے گا کہ اس کی بخشش ہوئی ہوگی ۔(تفسیر ابن کثیر)
قریب الموت پر پڑھنے کی تلقین:
حضرت مَع±قِلِ بِن یَسَار رضی اللّٰلہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اپنے مُردوں( یعنی قریبُ الموت شخص پر) پر یٰسین پڑھا کرو ۔(رواہ احمد ، وابو داوود)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰلہ نے صفوان رحمہ اللّٰلہ سے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں مجھے مشائخ نے بیان کیا کہ وہ غضیف بن الحارث الثمالی ( جو کہ صحابی ہیں) کی موت کے وقت ان کے پاس حاضر ہوئے تو وہ کہنے لگے : کیا تم میں سے کوئی یٰسین تلاوت کرتا ہے ؟ تو صالح بن شریح السکونی نے سورة یٰسین کی تلاوت شروع کی اور جب وہ چالیس آیت کی تلاوت کر چکے تو ان کی روح قبض ہوگئی، راوی کہتے ہیں: تو مشائخ کہا کرتے تھے : جب میت کے پاس سورة یٰسین کی تلاوت کی جائے تو اس کی بنا پر اس سے تخفیف ہو جاتا ہے۔ صفوان رحمہ اللّٰلہ کہتے ہیں: اور عیسیٰ بن معتز نے ابن معبد کے پاس سورة یٰسین کی تلاوت کی تھی (رواہ الامام احمد وقال الحافظ فی الاصابة اسنادہ حسن)
بروز قیامت شفاعت :
قرآن مجید میں ایک سورت ہے جو اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرتی ہے اور اپنے سننے والے کی بخشش کرتی ہے خوب سن لو وہ سورة یٰسین ہے۔ (رواہ سعید بن منصور البیہقی)
آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے تلاوت:
حضرت ابوہریرة رضی اللّٰلہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : بے شک اللّٰلہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے ایک ہزار پہلے سورة طہ اور سورة یٰسین کو پڑھا ، یعنی ان کی قرا¿ت کو ظاہرکیا اوران کی تلاوت کے ثواب کوبیان کیا، جب فرشتوں نے قرآن سنا تو کہا کہ خوشخبری ہے اس امت کے لیے جس پر یہ قرآن یا طہ ویس نازل ہوگا اور خوش قسمت ہیں وہ سینے جو اس کو محفوظ( یعنی حفظ )کریں گے اور خوش قسمت ہیں وہ زبانیں جو زبانی یا دیکھ کر اس کی تلاوت کریں گیں۔( رواہ الدارِمِی ومحمد بن اسحاق بن خزیمہ )
رسول اللّٰلہ ﷺ کی تمنا:
حضرت ابن عباس رضی اللّٰلہ عنہما سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : میں پسند کرتا ہوں کہ سورة یٰسین میری امت کے ہر انسان کے دل میں ہو ۔( تفسیر ابن کثیر ، تفسیر سورة یاسین)
صبح و شام خوشی میں:
حضرت یحیٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے فرمایا کہ : جس شخص نے صبح کوسورة یٰسین کی تلاوت کی تو وہ شام تک خوشی میں رہے گا اور جس شخص نے شام کو سورة یٰسین کی تلاوت کی تو وہ صبح تک خوشی میں رہے گا ۔( فضائل القرآن لابن الضریس )
شہید کی موت:
وہ شہید کی موت مرے گا : نبی کریم ﷺنے فرمایا:جو شخص ہر رات سو نے سے پہلے سورة یٰسین پڑھے گا وہ شہید کی موت مرے گا ۔(طبرانی)
﴾سورة یٰسین کے تمام آیتوں کی ترتیب وارمضامین﴿
عذاب کے مستحق لوگوں کو کچھ نہیں سوجھتا:
اللّٰلہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے ۔ یٰسین۔ قسم ہے قرآن حکیم کی کہ تم یقینا رسولوں میں سے ہو، سیدھے راستے پر ہو (اور یہ قرآن)غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ان میں سے اکثر لوگ فیصلہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں، اسی لیے وہ ایمان نہیں لاتے ۔ ہم نے ان کے گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں جن سے وہ ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں، اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے ۔ ہم نے انہیںڈھانک دیا ہے ، انہیں اب کچھ نہیں سُوجھتا۔ ان کے لیے یکساں ہے ، تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، یہ نہ مانیں گے ۔ تم تو اُسی شخص کو خبردار کرسکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے ۔ اُسے مغفرت اور اجرِ کریم کی بشارت دے دو۔
لوگوں کے اعمال ریکارڈہورہے ہیں:
ہم یقینا ایک روز مُردوں کو زندہ کرنے والے ہیں۔ جو کچھ افعال انہوں نے کیے ہیں وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کررہے ہیں۔ ہر چیز کو ہم نے ایک کُھلی کتاب میں درج کررکھا ہے ۔
نبی کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچاناہے :
انہیں مثال کے طور پراُس بستی والوں کا قصہ سناو جبکہ اُس میں رسُول آئے تھے ۔ ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے اور انہوںنے دونوں کو جھٹلادیا۔ پھر ہم نے تیسرا مدد کے لیے بھیجا اور ان سب نے کہا”ہم تمہاری طرف رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں“ بستی والوں نے کہا”تم کچھ نہیں ہو مگر ہم جیسے چند انسان، اور خدائے رحمٰن نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں کی ہے ، تم محض جُھوٹ بولتے ہو“رسولوںنے کہا ”ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم ضرور تمہاری طرف رسول بناکر بھیجے گئے ہیں، اور ہم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے “ بستی والے کہنے لگے”ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے ہیں۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کردیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاو گے “رسُولوں نے جواب دیا ”تمہاری فالِ بد تو تمہارے اپنے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔ کیایہ باتیں تم اس لیے کرتے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی ؟ اصل بات یہ ہے کہ تم حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو“ اتنے میں شہر کے دُور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا ”اے میری قوم کے لوگو، رسولوں کی پیروی اختیار کرلو۔ پیروی کرو ان لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں“۔
خدا نقصان پہنچانا چاہے تو کوئی بچا نہیں سکتا:
آخر کیوںنہ میں اس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے ؟ کیا میں اسے چھوڑ کر دُوسرے معبود بنالوں؟ حالانکہ اگر خدائے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تونہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چُھڑا ہی سکتے ہیں،اگر میں ایسا کروں تو میں صریح گمراہی میں مُبتلا ہوجاوں گا۔ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا، تم بھی میری بات مان لو۔(آخرکار ان لوگوں نے اسے قتل کردیا اور) اُس شخص سے کہہ دیا گیا کہ ”داخل ہوجا جنت میں“ اُس نے ک نے کہا ”کاش میری قوم کو یہ معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرمادی اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل فرمایا“۔
اللّٰلہ کو لشکر بھیجنے کی حاجت نہیں:
اُس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اُتارا، ہمیں لشکر بھیجنے کی کوئی حاجت نہ تھی،بس ایک دھماکہ ہوا اور یکایک وہ سب بُجھ کر رہ گئے ۔ افسوس بندوں کے حال پر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا اُس کا وہ مذاق ہی اُڑاتے رہے ۔ کیا اُنہوںنے دیکھا نہیں کہ اُن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے ؟ ان سب کو ایک روز ہمارے سامنے حاضرکیا جانا ہے ۔
اللّٰلہ نے نباتات میں بھی جوڑے بنائے :
ان لوگوں کے لیے بے جان زمین ایک نشانی ہے ۔ ہم نے اُس کو زندگی بخشی اور اس سے غلّہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔ ہم نے اس میںکھجوروں اورانگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس کے اندر سے چشمے پھوڑ نکالے ، تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں۔یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے ۔ پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے ؟ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا اُن اشیاءمیں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں۔
چاند، سورج ایک فلک میں تیر رہے ہیں:
ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے ، ہم اس کے اوپر سے دن ہَٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جارہا ہے ۔ یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے اور چاند، اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے ۔ نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے ۔ سب ایک ایک فلک میں تیررہے ہیں۔
اللّٰلہ کی رحمت ہی کشتیوں کو پار لگاتی ہے :
ان کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا، اور پھر ان کے لیے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔ ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں، کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ ہو اور کسی طرح یہ نہ بچائے جاسکیں۔ بس ہماری رحمت ہی ہے جو انہیںپار لگاتی اورایک وقتِ خاص تک زندگی سے متمع ہونے کا موقع دیتی ہے ۔
کچھ اللّٰلہ کی راہ میں بھی خرچ کرو:
ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ بچو اُس انجام سے جو تمہارے آگے آرہا ہے اور تمہارے پیچھے گزرچکا ہے ، شاید کہ تم پررحم کیا جائے (تو یہ سُنی ان سُنی کرجاتے ہیں) ان کے سامنے ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے ۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللّٰلہ نے جو رزق تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے کچھ اللّٰلہ کی راہ میں بھی خرچ کرو تو یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے ایمان لانے والوںکو جواب دیتے ہیں ”کیا ہم اُن کو کھلائیں جنہیں اگر اللّٰلہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم بالکل ہی بہک گئے ہو“۔
وصیت تک نہ کرسکیں گے :
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ”یہ قیامت کی دھمکی آخرت کب پوری ہوگی؟ بتاو اگر تم سچے ہو“ دراصل یہ جس چیز کی راہ تک رہے ہیں وہ بس ایک دھماکہ ہے جو یکایک انہیںاس حالت میں دھر لے گا جب یہ (اپنے دنیوی معاملات میں) جھگڑ رہے ہوں گے اور اُس وقت یہ وصیت تک نہ کرسکیںگے ، نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں گے،پھر ایک صُور پُھونکا جائے گااور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے ۔ گھبراکر کہیں گے ”ارے ، یہ کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھاکھڑا کیا؟یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کی بات سچی تھی“ایک ہی زور کی آواز ہوگی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کردیئے جائیں گے ۔
جنت میں ہر طلب پوری کی جائے گی:
آج کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہ کیا جائے گا اورتمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے رہے تھے، آج جنتی لوگ مزے کرنے میںمشغول ہیں وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوںمیں ہیں مسندوںپرتکیے لگائے ہوئے ، ہر قسم کی لذیز چیزیں کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں موجود ہیں، جو کچھ وہ طلب کریں ان کے لیے حاضر ہے، رب رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہاگیا ہے ۔
جب مجرموں کے ہاتھ پاو¿ں بولیں گے :
اور اے مُجرمو، آج تم چھٹ کر الگ ہوجاو ،آدم ؑکے بچو، کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ، اورمیری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے ؟ مگر اس کے باوجود اُس نے تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گمراہ کردیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے ؟ یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایا جاتا جارہا تھا۔ جو کفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو اُس کی پاداش میں اب اس کا ایندھن بنو۔آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں، ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاوں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں۔
لمبی عمر والوں کی ساخت اُلٹ دی جاتی ہے :
ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں مُوند دیں، پھر یہ راستے کی طرف لپک کر دیکھیں ، کہاں سے انہیں راستہ سُجھائی دے گا؟ ہم چاہیں تو انہیں ان کی جگہ ہی پر اس طرح مسخ کرکے رکھ دیں کہ یہ نہ آگے چل سکیں نہ پیچھے پلٹ سکیں۔جس شخص کو ہم لمبی عُمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم اُلٹ ہی دیتے ہیں کیا (یہ حالات دیکھ کر)انہیں عقل نہیں آتی؟
نبی ﷺ کو شعر گوئی نہیں سکھائی گئی:
ہم نے اِس(نبیﷺ) کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب، تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کردے جو زندہ ہو اورانکار کرنے والوں پر حجت قائم ہوجائے ۔
سواری، گوشت ، مشروبات اور مویشی :
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے ہیں اور اب یہ اُن کے مالک ہیں۔ ہم نے انہیں اس طرح ان کے بس میں کردیا ہے کہ ان میں سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں، کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں، اور ان کے اندر ان کے لیے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں۔ پھر کیا یہ شکرگزار نہیں ہوتے ؟ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے انہوں نے اللّٰلہ کے سوا دوسرے خدا بنالیے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے گی۔ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے بلکہ یہ لوگ اُلٹے ان کے لیے حاضر باش لشکر بنے ہوئے ہیں۔ اچھا، جو باتیں یہ بنا رہے ہیں وہ تمہیں رنجیدہ نہ کریں، ان کی چھپی اور کھلی سب
باتوں کو ہم جانتے ہیں۔
اللّٰلہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ساتھ ساتھ سورة یٰسین کو شوق کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطاءفرمائے(آمین بجاہ سید المرسلین)
انچارج اسلامیات ڈیسک ”اکثریت