صفحۂ اول    ہمارے بارے میں    رپورٹر اکاونٹ    ہمارا رابطہ
اتوار 19 اکتوبر 2025 

اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کی فضیلت

مولانا رضوان اللّٰلہ پشاوری | جمعہ 12 اکتوبر 2018 

    ام المو¿منین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رحمت عالم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل کے لیے تم میں سب سے زیادہ بہتر ہوں۔(رواہ الترمذی، مشکوٰة المصابیح )انسان کے لیے بہت بڑی مونس اس کی بیوی بھی ہے :انسان کا خمیر انس سے ہے اورانسیت اس کی فطرت میں شامل ہے ، اس لیے ہر انسان کو اپنی اجتماعی زندگی کے علاوہ نجی زندگی میں بھی ایک ایسے مونس کی تلاش ہوتی ہے جس کے سامنے وہ اپنی داستانِ زندگی بیان کر سکے اور کرہ¿ ارض پر کسی بھی انسان کے لیے نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی مونس نہیں، اﷲ رب العزت نے مرد کے لیے سب سے بڑا مونس اس کی بیوی کو بنایا،جیساکہ ارشادِ باری سے واضح ہوتا ہے :یعنی اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیداکیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو۔(الروم)

    علاوہ ازیں ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اس کے بعد جنت میں بی بی حوا علیہا السلام کا وجود، پھر ان کا آپس میں نکاح بھی اس بات کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔غور کیجئے ! جنت میں کس لطف و مسرت کی کمی تھی؟ہر سو نعمتوں کی بارش ، ہر طرف انوار کی تابش ، لیکن سیدناآدم علیہ السلام اس پر بھی اپنے دل کا ایک گوشہ خالی پاتے ہیں، محسوس ایساہوتاہے کہ اب بھی کوئی خلاہے ، پھر اتمامِ نعمت کے لیے اللّٰلہ تعالیٰ کی جانب سے یہ نہیں ہوتاکہ جنت کی لذتِ مادی اور سرورِ روحانی میں کچھ اضافہ کردیاجائے ، بلکہ تخلیق ہوتی ہے آدم علیہ السلام ہی سے ایک اورمخلوق کی ،اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، سیدنا آدم علیہ السلام کا دل اب جاکر تسکین پاتا ہے ، نوازشوں اور بخششوں کی تکمیل گویااب جاکر ہوئی، سیدنا آدم علیہ السلام کے حق میں جنت حقیقی معنی میںجنت اب جاکر ثابت ہوئی جب مرد کے لیے عورت اور شوہر کے لیے بیوی وجود میں آئی۔
بہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے بہتر ہو :
    جب یہ حقیقت ہے توایمان، اخلاق اور عقل کاتقاضہ ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے ، اس کے بغیر انسان سکون و اطمینان حاصل کر بھی نہیں سکتا،کیوںکہ اس سے انسان خود بھی سکون پائے گااو رگھر کا ماحول بھی پرسکون رہے گا، اورگھریلو زندگی اگر پر سکون ہے تو اس کا اثر بیرونی زندگی پر لازمی ہے ، اور گھریلو زندگی خوشگوار ہوگی بیوی کے ساتھ حسن سلوک، ادائے حقوق اور خوش اخلاقی کا معاملہ کرنے سے ، اس لیے قرآن نے حکم دیا:اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو۔(النسائ)
    گویا حق تعالیٰ شوہروں سے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی سفارش فرماتے ہیں، لہٰذا اے نئے پرانے دولہو! حق تعالیٰ کی اس سفارش کو قبول فرماکر اپنی دلہنوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو، چاہے تمہاری بیویاں تم پر غالب آجائیں، یہی ایک کریم اور شریف شوہر کی پہچان ہے ۔اور حدیث مذکور میں اس حقیقت کو حضورِاکرم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم نے بیان فرماکر اپنا عمل بھی اس سلسلہ میں امت کے سامنے پیش کیا، ارشاد فرمایا: ”خَی±رُکُم± خَی±رُکُم± لِا¿َھ±لِہ“ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بھی بہتر ہو، اہل خانہ سے آدمی کا جتنا واسطہ پڑتا ہے عموماً اتنا دوسروں سے نہیں پڑتا، پھر گھروالوں سے بسا اوقات خلافِ مزاج باتیں بھی پیش آتی ہیں، اب ایسے موقع پر(بشرطیکہ خلافِ مزاج بات خلافِ شرع نہ ہو) چشم پوشی اور خوش اخلاقی سے کام لیا، تو یہ اس کے بہترین ہونے کی دلیل ہے ۔
باہر بڑائیاں، گھر میں لڑائیاںیہ بد اخلاقی ہے:
    جن کا سلوک باہر تو اچھا ہو مگر اہل خانہ کے ساتھ برا ہو، تو یہ ان کے بد اخلاق ہونے کی دلیل ہے ، حضور صلی اللّٰلہ علیہ و سلم نے بنیادی بات بیان فرمادی، ارشاد ہے : ”خَی±رُکُم± خَی±رُکُم± لِا¿َہ±لِہ“تم میںبہترین فرد وہ ہے جواپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو۔یہ حدیث بھی بڑی جامع ہے ، اس کامطلب یہ ہے کہ اگر ہم مرد ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ماں باپ کے لیے اچھی اولاد، بہن کے لیے اچھے بھائی، بیوی کے لیے بہتر شوہر اور گھر والوں کے لیے اچھے فرد ثابت ہوں، یہی حال عورتوں کا بھی ہوکہ وہ اپنے ماں باپ کے لیے اچھی اولاد، بھائی کے لیے اچھی بہن، شوہر کے لیے اچھی بیوی اور گھروالوں کے لیے نیک عورت ثابت ہوں،اگر واقعی معاملہ ایساہے تو یہ ان کے اچھے اور نیک ہونے کی علامت ہے ۔
    امام ربانی، محبوبِ سبحانی، غوثِ صمدانی، شیخ یزدانی، پیر حقانی ، عامل قرآنی، ولایت کی نشانی، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللّٰلہ علیہ فرماتے ہیںکہ اللّٰلہ اور اس کے رسول صلی اللّٰلہ علیہ و سلم کے نزدیک سب سے بہتر شوہر وہ ہے جو بیوی کی نظر میںبہترہو، اور سب سے بہتر بیوی وہ ہے جو شوہر کی نظر میں بہتر ہو۔
    لقمانِ حکیمؒ نے فرمایا : میں طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سب سے بہتر دوا محبت و عزت ہے ، کسی نے کہا: اگر یہ بھی اثر نہ کرے تو؟فرمایا: دوا کی مقدار بڑھا دیں، اس کا فائدہ دونوں کو ہوگا۔
حضور صلی اللّٰلہ علیہ و سلم کااپنے اہل خانہ سے سلوک :
    آگے حضور صلی اللّٰلہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”ا¿َنَا خَی±رُکُم± لِا¿َھ±لِی±“میں تم میں اپنے اہل کے لیے سب سے بہتر ہوں۔ آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم اپنے اہل بیت اور اپنی تمام ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ، کبھی کسی کو ناراضی یا شکایت کا موقع نہ دیتے ، بلکہ ہمیشہ ان کی دلجوئی کا خیال رکھتے تھے ، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر بیوی یہ سمجھتی کہ حضوراکرم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کو دیگر ازواجِ سے زیادہ مجھ سے محبت ہے ۔
    آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم نے گیارہ شادیاں کیں، اوربیک وقت نو بیویاں آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم کے ساتھ تھیں،(جو آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم کی خصوصیات میں سے ہے) جب مدینہ طیبہ میں ہوتے تو روزانہ عصرکے بعد تمام ازواجِ مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے ، اور ہر ایک کی ضرورت معلوم کر کے اس کی تکمیل فرماتے ، ازواج کے مابین شب باشی کی باری متعین فرماتے ، گو آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم پر اس کی پابندی شرعاً لازم نہیں تھی، لیکن آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم اپنی جانب سے اس کا پورا اہتمام فرماتے ، جب سفر پر روانہ ہوتے تو ازواج کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے ، جس کا نام نکل آتا اسے ساتھ لے جاتے ، یہ بھی ازواج کی تالیف قلب کے لیے تھا۔غرض سیرتِ رسول اللّٰلہ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم میں ازواجِ مطہرات کی دلداری کے سلسلہ میں کئی واقعات ملتے ہیں ۔
حضور صلی اللّٰلہ علیہ و سلم کا اہل خانہ سے سلوک کا واقعہ :
    چنانچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ رحمت دو عالم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم باہرسے تشریف لا رہے تھے ، گھر کے صحن میں سیدہ عائشہ ؓ کو دیکھا کہ پیالہ سے پانی پی رہی ہیں، وہیں سے آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے حمیرا!(اس پیارے جملے سے) اندازہ لگاﺅ! حضورصلی اللّٰلہ علیہ وسلم کا اپنی بیوی سے کتنا محبت بھرا معاملہ تھا!آپ ان کو کبھی پیار سے ’’حُمَی±رَا‘‘ فرماتے ، یہ حضرت عائشہؓ کا لقب ہے ، جو’’حَم±رَائُ‘‘ کی تصغیر ہے ، جس کے معنی ہیںسرخ رنگ والی، یعنی گوری، مگر محققین محدثین کے نزدیک یہ سنداً ثابت نہیں کبھی یَا عَائِش! فرماتے ، یہ سب بیوی کو پکارنے کے پیارے انداز تھے ۔اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہ بھی سنت ہے کہ بیوی کو پیار بھرے نام سے پکارا جائے ، آج اس سنت کو گھروں میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے ، اس پر عمل کرنے سے آپس میں محبت پیدا ہو کر نفرت دور ہوگی۔تو فرمایا: اے حمیرا ! تھوڑا پانی میرے لیے بھی بچانا۔غور فرمائیں !بیوی امتی ہے ، شوہر نبی ہے ، برکتیں نبی کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں، مگر سبحان اﷲ! آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم اپنی رفیقہ¿ حیات کے بچے ہوئے پانی کو پینا چاہتے ہیں، آگے سنیے ! جب سیدہ عائشہ ؓ نے کچھ پانی بچا کر خدمت اقدس میں پیش کیا تو نو ش فرمانے سے پہلے معلوم کیا: اے حمیرا ! تم نے اس پیالہ کے کس حصہ سے لب لگاکر پانی پیا؟ تاکہ میں بھی اس جگہ سے پانی پیو ں۔ اﷲ اکبر کبیرا !(خواتین کے لیے تربیتی بیانات)
    حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں پانی پیتی، یا ہڈی چوستی، پھر میں آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم کو دیتی تو آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم اسی مقام سے نوش فرماتے او رہڈی سے گوشت نکال کر کھاتے جہاں سے میں پیتی یاکھاتی۔ (مسلم/ شمائل کبری)
محبت کا جواب محبت سے ملتا ہے :
     اگر خاوند اپنی بیوی کو اس طرح پیار دے ، اس کے ساتھ اس قسم کا حسن سلوک اور دلجوئی کا معاملہ کرے ، تو کیا بیوی کا دماغ خراب ہو گیا ہے کہ وہ محبت کا جواب محبت سے نہ دے ؟ ضرور وہ بھی محبت کا جواب محبت ہی سے دے گی، پہلے کوئی ابتدا تو کرے ،ا س لیے کہ عورت کی فطرت میںیہ بات ہے کہ اس کے ساتھ محبت اور نرمی کامعاملہ کیاجائے تو وہ جان تک قربان کرسکتی ہے ، لیکن اگر حقارت اور سختی کامعاملہ کیاجائے تووہ اپنی جان تک گنوا دیتی ہے۔
    جب حضوراکرم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم اس قدر محبت کا معاملہ فرماتے تو جواباً سیدہ عائشہ ؓ بھی اسی قدر محبت کا معاملہ کرتیں، خود فرماتی ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم عشاءکے بعد میری باری میں گھر تشریف لاتے تو میں کبھی فرطِ محبت میں یہ اشعار پڑھتی:
        لَنَا شَم±سµ وَلِلاٰفَاقِ شَم±سµ            وَشَم±سِی± خَی±رµ مِن± شَم±سِ السَّمَآئِ
        فَاِنَّ الشَّم±سَ تَط±لُعُ بَع±دَ فَج±رٍ            وَشَم±سِی± طَالِعµ بَع±دَ ال±عِشَآئِ
ایک سورج تو ہماراہے ،اور ایک سورج آسمان کا ہے ، میرا سورج آسمان کے سورج سے بہتر ہے ، کیوںکہ آسمان کا سورج تو فجر کے بعد طلوع ہوتا ہے ، اور میرا سورج عشاءکے بعد طلوع ہوتا ہے ،اور اس کی روشنی عشاءکے بعد بھی باقی رہتی ہے ۔ (مثالی دلہن)
اہل خانہ سے حسن سلوک پر مغفرت :
    بہر حال حضوراکرم صلی اللّٰلہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ساری امت او راس کے ہر فرد کے لیے نمونہ ہے ، آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم امت کو بتلانا چاہتے تھے کہ اہل خانہ کے ساتھ اس طرح حسن سلوک کرنا چاہیے ، آپ صلی اللّٰلہ علیہ و سلم نے خود بھی ایسا کیا او رامت کو بھی اس طرف متوجہ فرمایا: ’’ خَی±رُکُم± خَی±رُکُم± لِا¿َھ±لِہ، وَا¿َنَا خَی±رُکُم± لِا¿َھ±لِی±‘‘ اہل خانہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا حقیقت میں اچھا ہے ، ہماری کوئی تعریف کردے ، اچھا کہہ دے ، خصوصاً کہنے والا کوئی بڑا ہو تو پھولے نہیں سماتے ،پھر کیا خیال ہے اس شخص کے بارے میں جسے حضورِاکرم صلی اللّٰلہ علیہ و سلم بہتر قرار دیں، اس سے زیادہ اچھا کون ہو سکتا ہے ؟ یہی کیا کم فضیلت کی سند ہے ؟ اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کے فضائل اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے ، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی روایت ہے ، حضورِاکرم صلی اللّٰلہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو لایا جائے گا ،جس کے پاس بظاہر ایسی کوئی نیکی نہ ہوگی جس سے وہ جنت کی امید کر سکے ، مگر حق تعالیٰ فرمائیںگے کہ فرشتو! اس بندے کو جنت میں داخل کر دو، اس لیے کہ یہ اپنے اہل و عیال پر بڑا مہربان تھا ،ان کے ساتھ اس کا سلوک بڑا اچھا تھا۔(کتاب البر/ از: شمائل کبریٰ)اس سے ثابت ہوا کہ جوشخص اہل خانہ کے لیے بہتر ہوگا وہ اوروں کے لیے بھی بہتر ہوگا اور اس کے نتیجہ میںاس کی دنیا وعقبیٰ دونوں بہتر ہوگی۔ان شاءاللّٰلہ العزیز۔
اﷲ پاک ہمیںان صفات سے آراستہ ہونے کے ساتھ معاشرہ اور گھرکا اچھا فرد بننے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔
یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّم± دَائِماً ا¿َبَدًاعَلٰی حَبِی±بِکَ خَی±رِال±خَل±قِ کُلِّھِم±
٭…٭…٭

انچارج دینی ایڈیشن
فراغت:۔جامعہ عثمانیہ پشاور(فاضل وفاق المدارس العربیہ پاکستان)
rizwan.peshawarii@gmail.com

ہمارے بارے میں جاننے کے لئے نیچے دئیے گئے لنکس پر کلک کیجئے۔

ہمارے بارے میں   |   ضابطہ اخلاق   |   اشتہارات   |   ہم سے رابطہ کیجئے
 
© 2020 All Rights of Publications are Reserved by Aksriyat.
Developed by: myk Production
تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2020 اکثریت۔